اب چیئرمین کے لیے پیسہ لگے گا

493

سینیٹ کے معرکۃ الآرا الیکشن مکمل ہوگئے۔ بظاہر مسلم لیگ ن نے اکثریت حاصل کرلی ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ 15 افراد جیتے جب کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے 12 افراد سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔ جب کہ پی ٹی آئی کے 6 سینیٹر منتخب ہوئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نے دعویٰ کیا تھا کہ سینیٹ میں ہماری اکثریت ہے اور ہم اپنا چیئرمین پھر لے آئیں گے لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے 33 سینیٹرز ہوگئے ہیں اور پیپلزپارٹی کے 20 اور پی ٹی آئی کے 12 سینیٹرز ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے 5 سینیٹرز رہ گئے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات کے بارے میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے متنبہ کیا تھا کہ اس الیکشن میں بڑے پیمانے پر ہارس ٹریڈنگ ہورہی ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس سے بھی اس کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اب تو پی ٹی آئی کے چیئرمین ، پیپلزپارٹی کے رہنما اور متحدہ قومی موومنٹ کے ایک دھڑے کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ ہوئی ہے۔ جن اعداد و شمار کا ذکر اوپر کیا گیا ہے ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے جو توجہ سراج الحق نے دلائی تھی وہ بالکل درست ثابت ہوئی اب انہوں نے کہاہے کہ جو لوگ رشوت اور لوٹ مار کا پیسہ دے کر سینیٹر منتخب ہوئے ہیں وہ عوام کی خدمت کیسے کریں گے۔ اس طرح جن ارکان صوبائی اسمبلی نے اور قومی اسمبلی کے جن ارکان نے بد دیانتی کی ہے وہ محض اختلاف رائے تو نہیں بہت واضح ہے کہ بڑے پیمانے پر پیسہ چلا ہے۔ مسلم لیگ ن کے 9 سینیٹر ریٹائر ہوئے تھے لیکن اس کے 15 سینیٹرز جیت گئے جب کہ پیپلزپارٹی کے 18 سینیٹرز ریٹائر ہوئے تھے لیکن اس کے صرف 12 منتخب ہوسکے۔ کیا اس عرصے میں اس کے ارکان صوبائی اسمبلی کی تعداد کم ہوگئی یا اتحادی الگ ہوگئے۔ یا پھر جیساکہ خود پیپلزپارٹی والے شکوہ کررہے ہیں کہ پیسہ چلا ہے۔ ایک سوال بہت واضح ہے اعداد و شمار جاننے والوں کے مطابق پی ٹی آئی کے چودھری سرور کو نہیں جیتنا تھا لیکن انہیں کسی نے اضافی ووٹ دیے ہیں۔ پیپلزپارٹی اس کی براہ راست تصدیق یا تردید نہیں کررہی ۔ لیکن کہا یہی جارہاہے کہ اس کے ووٹ تھے۔ یہ پتا نہیں کہ عمران خان کیوں کہہ رہے ہیں کہ سینیٹ الیکشن میں شرمناک ہارس ٹریڈنگ ہوئی۔ عوام نے اپنے نمائندوں کو فروخت ہوتے دیکھا ہے۔ سب سے زیادہ ہولناک انکشاف فاٹا سے ایک امیدوار نظام الدین سالارزئی نے کیا ہے انہوں نے تو دعویٰ کیا ہے کہ فاٹا میں سینیٹ کی سیٹ کا ریٹ 90 کروڑ تک جا پہنچا تھا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ سب سے زیادہ پیسہ کے پی کے میں استعمال ہوا ہے جب کہ کراچی میں سینیٹر کے لیے ریٹ سات کروڑ روپے تھا۔ اگر پوائنٹ ٹیبل یا سینیٹ کے ارکان کی کل تعداد اور پارٹی پوزیشن دیکھیں تو وہ بھی خاصی واضح ہے کہ جس پارٹی کے صرف 9 سینیٹرز ریٹائر ہوئے تھے اس کے 15 جیت گئے۔ جس کا ایک ریٹائر ہوا تھا اس کے 6 جیت گئے۔ ایک بہت بڑا گروپ آزاد سینیٹرز کا بنا ہے۔ ان میں بلوچستان سے 6 اور فاٹا سے 8 ہیں۔ بلوچستان میں کوئی آزاد سینیٹر نہیں تھا اس مرتبہ تمام آزاد سینیٹرز بنے ہیں۔ جن پارٹیوں کو دھچکا پہنچا ہے ان میں پیپلزپارٹی سر فہرست ہے جس نے اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن اس کو 6 سینیٹرز کا خسارہ اٹھانا پڑا۔ اسی طرح متحدہ قومی موومنٹ کے صرف ایک سینیٹر فروغ نسیم جیت سکے جس کی نشاندہی روزنامہ جسارت نے 14 فروری کی اشاعت میں کردی تھی کہ متحدہ کی لڑائی مصنوعی ہے۔ صرف فروغ نسیم جیتیں گے۔ متحدہ کے 8 میں سے 4 سینیٹرز ریٹائر ہوئے تھے اور صرف ایک منتخب ہوا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر فاروق ستار اپنے 12 اور بعد میں 15 ارکان سندھ اسمبلی بکنے کا اعتراف کرچکے ہیں۔ اسے جمہوریت ضرور کہتے ہیں لیکن اس جمہوریت میں جو کچھ ڈالا جارہاہے تو اس سے خیر برآمد ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ الیکشن کے بعد جوڑ توڑ عروج پر ہے اور سب کا رخ بلوچستان اور فاٹا کی طرف ہوگیا ہے کیونکہ وہاں اب 14 سینیٹرز ہیں اور یوسف بادینی کو ملاکر 15 سینیٹرز بن گئے ہیں گویا آزاد سینیٹرز اس وقت سینیٹ میں تیسری بڑی قوت بن چکے ہیں۔ سینیٹ الیکشن میں سینیٹرز کے انتخاب میں اگر 90 کروڑ تک ریٹ پہنچ گیا تھا تو پھر چیئرمین کے انتخاب کے لیے ریٹ کہاں جائے گا۔ اگرچہ مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ 15 افراد سینیٹرز بنے ہیں اور وہ سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے لیکن جس طرح ہر صوبے اور علاقے میں پیسہ چلایا گیا ہے تو یہ پیسہ رکنے والا نہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ مسلم لیگ ن کے جو نئے سینیٹرز بنے ہیں ان میں سے کسی پر ہاتھ چل جائے ویسے بھی وہ براہ راست مسلم لیگی ٹکٹ پر منتخب نہیں ہوئے ہیں بلکہ آزاد ہی کہلائیں گے اور گلّے سے آزاد بھیڑوں کو اچک لینا شیطان کے لیے آسان ہی ہوتا ہے جس طرح ایم کیو ایم کی بھیڑیں اچک لی گئیں۔ اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سینیٹ کے 52 ارکان کے انتخاب میں اربوں روپیہ لگایا گیا ہے کسی نے خود پیسے لگائے ہیں کسی کے لیے پارٹی نے لگائے ہیں۔ لیکن پیسے بہر حال لگے ہیں۔ سینیٹرز تو براہ راست عوامی خدمت کے کام نہیں کرتے لیکن ان کو بھی فنڈز ملتے ہیں یہ فنڈز کہاں جاتے ہیں اس پر کوئی دو رائے نہیں لیکن یہ معاملہ صرف سینیٹرز کا نہیں ہے بلکہ ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی سب کا ہے۔ اس رجحان کو کیسے روکا جائے۔ یہ اگر نہیں روکا گیا تو پاکستانی انتخاب محض تجارت بن کر رہ جائیں گے۔ کیونکہ ہر منتخب رکن پارلیمنٹ بڑے دبدبے سے کہے گا کہ بھائی کروڑوں دے کر سیٹ حاصل کی ہے۔ یوں ہی تو نہیں چھوڑدوں گا۔ پھر اگر اپنے پیسے ہوئے تو وہ وصول کرے گا۔ پارٹی کے ہوئے تو وہ کسی نہ کسی طرح وصول کرے گی۔ کسی اور نے لگائے ہیں تو وہ اپنے کام لے گا۔ ان انتخابات پر بڑی سیاسی جماعتوں میں جشن منایا جارہاہے اس پر کس بات کا جشن۔ فاروق ستار نے تو شکست کی وجہ سے کہا تھا کہ یہ جشن کا نہیں شرم کا مقام ہے لیکن کوئی بھی جمہوریت پسند اور صاحب ضمیر شخص ان انتخابات کو قابل فخر نہیں کہہ سکتا۔ اب تو عوام کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیا گیا ہے۔ اس رویے کی اصلاح کے لیے عوام کا طرز الیکشن بھی بدلنا ہوگا۔ جس دفعہ 62 اور 63 پر اعتراضات ہورہے ہیں اس کو سختی سے بروئے کار لانا ہوگا۔