پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا مستقبل کیا ہوگا ؟

504

سینیٹ کے انتخابی نتائج کی بازگشت پورے ملک میں جاری ہے۔ ان انتخابات کے نتائج پر گفتگو کم از کم چیئرمین سینیٹ کے انتخابات تک جاری رہے گی۔ اس لیے انتخابات کے ساتھ ہی سینیٹ کا اگلا چیئرمین کون ہوگا یہ سوال بھی سیاسی محفلوں میں کیا اور سنا جارہا ہے۔
لیکن ایوان بالا کے چھ سال کے لیے منتخب ہونے والے سینیٹر اس لحاظ سے خوش قسمت ہوں گے کہ وہ آئندہ پانچ سال کے لیے منتخب ہونے والی حکومت اور اراکین قومی اسمبلی کو خوش آمدید کہہ سکیں گے۔
سینیٹ کے ان انتخابات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکومتی جماعت مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف کی نااہلی کے باوجود ان کی پارٹی ایوان بالا کی صف اول کی پارٹی کے روپ میں سامنے آئی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ نواز پر اپنے رہنما نواز شریف کی نااہلی اور قومی اسمبلی ہی نہیں وزرات عظمیٰ سے باہر نکلنے سے کوئی اثر نہیں پڑا بلکہ اس کا استحکام ہوا ہے۔ جس سے یہ تاثر بھی مل رہا ہے کہ پارٹی میں نواز شریف کی وہ حیثیت اور اہلیت نہیں تھی جو ان کے پارٹی سے ’’مائنس‘‘ ہونے کے بعد ان کی کمی کا احساس دلاتی اور ان کے نکلنے سے پارٹی کو نقصان ہوتا۔ مسلم لیگ کی سینیٹ کے انتخابات میں واضح برتری سے یہ بھی امکان پیدا ہوگیا ہے کہ اس سال ہونے والے عام انتخابات میں بھی اسے ملکی سطح پر برتری حاصل ہوسکتی ہے۔ سینیٹ کی 52 نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن نے 15 پیپلز پارٹی نے 12 تحریک انصاف نے 6 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ایک زرداری سب پہ بھاری کی گونج میں پیپلز پارٹی کو اس کے اپنے صوبے سندھ سے صرف دس سیٹیں مل سکیں۔ یہاں بارہ سیٹوں میں سے ایک سیٹ مسلم لیگ فنکشنل کے مظفر حسین شاہ اور ایم کیو ایم کے فروغ نسیم کو ملیں۔ پی پی پی کے چمپئن مانے جانے والے شریک سربراہ آصف زرداری کی تمام چالاکیوں اور چالبازیوں کے باوجود اسے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں وہ پزیرائی نہیں مل سکی جس کی امیدیں لگائی گئیں تھیں۔ جس کی وجہ سے اب یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو پنجاب سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنے ’’تمام گھوڑے‘‘ دوڑانا پڑیں گے۔ چوں کہ پنجاب سے زیادہ حاصل کی جانے والی نشستوں پر ہی آئندہ کی وفاقی حکومت کا دارومدار ہوتا ہے۔ اس لیے اگر پیپلز پارٹی 2013 کی طرح پنجاب سے قومی اسمبلی کی سیٹیں نہیں حاصل کرسکی تو اسے آئندہ بھی اتحادی پارٹیوں کے باوجود اقتدار ملنا بہت مشکل ہوگا۔
سینیٹ کے انتخابی نتائج سے اس بات کے بھی خدشات پیدا ہوچکے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو عام انتخابات میں اس کے اپنے صوبے سے بھی قومی اور صوبائی اسمبلی میں توقعات کے مطابق نشستیں نہیں مل سکیں گی۔ سینیٹ کے انتخابات میں دو سال کی عمر رکھنے والی جماعت پاک سر زمین پارٹی نے بھی اپنا وزن ظاہر کردیا۔ پاک سر زمین پارٹی میں شامل ایم کیو ایم الطاف سے بغاوت کرنے والے اراکین سندھ اسمبلی کے تعاون سے مسلم لیگ فنکشنل کے مظفر حسین شاہ سینیٹ کی ایک سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ نتائج سب سے زیادہ ایم کیو ایم کے لیے شرمندگی کا باعث بن چکے ہیں۔ کیوں کہ ایم کیو ایم کو چار سیٹوں پر کامیابی کی توقع تھی لیکن انہیں صرف ایک سیٹ مل سکی۔ جس سے یہ بات واضح ہونے لگی ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی اب منتخب ایوانوں سے بھی واپسی شروع ہوچکی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے سندھ کے شہری علاقوں سے ان کی پارٹی کی واپسی ہوئی ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں ایم کیو ایم کو توقع تھی کہ ان کی صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 51 سے کم ہوکر 37 ہونے کے باوجود سینیٹ کی چار سیٹوں پر کامیابی حاصل کرلیں گے لیکن توقع کے برعکس صرف فروغ نسیم اپنی سیٹ پر کامیاب ہوسکے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کامیابی کے لیے بھی چھ مرتبہ ووٹوں کی گنتی کرائی گئی۔ ایم کیوایم پاکستان کی یہ سیٹ بھی متنازع ہوجاتی (بلکہ اب بھی ہوسکتی ہے) اگر سینیٹ کے انتخابات سے دو روز قبل دونوں کنوینیر شپ کے معاملے کو پس و پشت پر ڈال کر ان انتخابات کے لیے اتفاق نہ کرلیا جاتا۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو فروغ نسیم کی ایک سیٹ بھی نہیں ملتی کیوں کہ فروغ نسیم عامر خان گروپ کے نامزد امیدوار تھے جب کہ شکست سے دو چار ہونے والے کامران ٹیسوری ایم کیو ایم پاکستان کے متنازع سربراہ فاروق ستار کے نامزد کردہ تھے۔ لیکن یہ فاروق ستار اور ان کے مخالف گروپ کی دانش مندی تھی کہ انہوں نے سینیٹ کے انتخابات کے لیے اپنے امیدواروں پر اتفاق کیا جس کے نتیجے میں ایک سیٹ تو ان کے حصے میں آ ہی گئی۔ ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے سینیٹ انتخابات کے نتائج کے بعد سندھ میں ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کی طرف سے بدترین ہارس ٹریڈنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی نے کھلے عام ہارس ٹریدنگ کا بازار گرم کیا۔ انہوں نے انتخابات میں ناکامی کی وجہ ان کے بارہ ارکان کی غداری قرار دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے چھ ووٹ بک گئے۔ جب کہ دو خواتین اراکین سندھ اسمبلی نے علانیہ ایم کیو ایم کے امیدواروں کے بجائے پیپلز پارٹی کے نامزد امیدواروں کو ووٹ دیے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی اس بات کو کہ ہارس ٹریدنگ کی گئی یا چھ ووٹ بک گئے ہیں کو درست تسلیم کرلیا جائے تو بھی بحیثیت پارٹی سربراہ یہ ان ہی کی ناکامی ہے۔ لیکن ان انتخابات میں شکست کی اصل وجہ تو پارٹی میں چھ فروری سے پیدا ہونے والے اختلاف تھے جو تاحال نظر آرہے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات کے نتائج اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ اگر ایم کیو ایم نے اپنی صفوں کو درست نہیں کیا اور پارٹی کے اندر موجود خامیوں کو دور نہیں کیا تو عام انتخابات میں بھی ایم کیو ایم کو اس بار ’’تاریخی ناکامی‘‘ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ایسی صورت میں ہر انتخابات میں ایم کیو ایم کے امیدواروں کی ’’تاریخی کامیابیوں‘‘ کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ یقیناًایسا ہوا تو سندھ کی سیاست میں 30 سال بعد تبدیلی آجائے گی اور ایم کیو ایم کے مخالفین اسی طرح سکھ کا سانس لیں گے جس طرح کراچی میں امن کے بعد کراچی کے لوگ سکون کا سانسیں لے رہے ہیں۔