اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اسے زمین پر جہنم قرار دیا ہے۔ یہ شام کا مشرقی علاقہ غوطہ ہے جہاں ایک طرف جنگی طیارے آگ برسا رہے ہیں دوسری طرف معصوم شامی شہری کلورین، بیرل بموں اور کیمیائی ہتھیاروں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ غوطہ سنی مسلمانوں کا علاقہ ہے جہاں چار لاکھ افراد محصور ہیں۔ بشار حکومت کے خلاف یہ مزاحمتی قوتوں کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔ اس قبضے کو ختم کرانے کے لیے ایران، تربیت یافتہ شیعہ فورسز، حزب اللہ، شام کے صدر بشار الاسدکی افواج اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی روسی فضائیہ انسانیت کی تمام حدود پامال کررہی ہیں۔ جن کے وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں محض چند دن میں 600 کے قریب بچے، عورتیں، بوڑھے اور جوان شہید ہوچکے ہیں۔
24فروری کو معروف بھارتی اداکارہ سری دیوی اچانک انتقال کرگئی۔ وہ زیادہ شراب پینے کی وجہ سے اپنے حواس کھو بیٹھی تھی اور باتھ ٹب میں ڈوب کر ہلاک ہوگئی۔ چار دن بعد ممبئی میں آخری رسوم کی ادائیگی کے بعد اسے جلادیا گیا۔ جیسے ہی سری دیوی کی موت کی خبر آئی ہمارا الیکٹرونک میڈیا اس خبر کے مدار میں آگیا۔ کسی زمانے میں گیتوں والے ریکارڈ پر کتا بیٹھا ہوتا تھا۔ آج ایسی ہر خبر پر ہمارا الیکٹرونک میڈیا بیٹھا ہوتا ہے اور جب تک جی بھر کر بھونک نہ لے اسے چین نہیں پڑتا۔ تمام چینلوں پر بریکنگ نیوز کا طوفان آگیا۔ خبروں کے بلیٹن میں پہلی خبر سری دیوی کا سانحہ وفات قرار پایا۔ اس کے ساتھ ہی سری دیوی کے فحش گانوں کے ٹوٹے چل پڑے بغیر کسی سنسر کے۔ اس پر بھی حق ادانہ ہوا تو عظیم اداکارہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس کی اداکاری کے مناظر بھی بہ اہتمام دکھائے گئے۔ یوں خبروں کا سارا وقت سری دیوی لے گئی۔ بیش تر چینلوں کو اس صدمہ عظیم کے نشر کرنے میں اہل شام کا خیال ہی نہیں رہا۔ چند چینلوں نے بے دلی سے آخر میں وقت کا پیٹ بھرنے کے لیے منٹ دومنٹ کی شام کی خبر چلا دی۔ وہ نیوز ریڈر جو سری دیوی کی خبر پڑھتے ہوئے حسرت ویاس کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ انہوں نے اس سپاٹ لہجے میں اہل شام پر حملوں کی خبر پڑھی جیسے ’’اُڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیورکی۔‘‘
غوطہ کے حالات بیان کرنے کے لیے جو قلب وجگر چاہیے وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ وہاں بچوں کی کفن میں لپٹی ہوئی لاشیں دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے کہ ہم زندہ کیوں ہیں؟ ہم سب عمومی انداز میں معمولات زندگی کیسے گزار رہے ہیں؟ مرنے والے، زخمی ہونے والے مسلمان ہیں، ہمارے ہی بہن بھائی ہیں، یہ لاشے ہمارے ہی صحنوں میں بچھے ہیں تو پھر ہمارے دل کیوں نہیں پھٹ رہے؟ ہماری آنکھیں وقف گریہ کیوں نہیں ہیں؟ پھول جیسے معصوم بچوں کی جلی کٹی لاشیں، سیمنٹ کی دیواروں میں چنی ہوئی، عمارتوں کے ملبے میں دبی ہوئی، قطاروں میں بچھی ہوئی، دیکھنے کے لیے ہم زندہ کیوں ہیں؟ کہا جاتا ہے دنیا کا سب سے بڑا بوجھ باپ کے کاندھے پر اولاد کا جنازہ ہوتا ہے، ہمیں یہ بوجھ محسوس کیوں نہیں ہورہا؟ کیا وہ ہمارے بچے نہیں ہیں؟ وہاں روزانہ جنازے اُٹھ رہے ہیں، یہاں روزانہ پی ایس ایل کے میچ ہورہے ہیں۔ بے حسی اور بے غیرتی کیا کچھ اور ہوتی ہے۔ جتنا تذکرہ، جتنا افسوس لاہور قلندر کی مسلسل شکست پر ہے اس کا ہزارواں حصہ بھی غوطہ کے متاثرین کے لیے نہیں ہے۔ کیوں؟
غوطہ میں اکثر گھر ایسے ہیں جہاں تمام اہل خانہ شہید ہوچکے ہیں۔ اس ظالم اور بے حس دنیا کو چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ ایک دیوار پر عربی میں تحریر ہے ’’یہ گھر اب مہمانوں کی مہمان نوازی سے معذرت خواہ ہے کیوں کہ اس گھر کے سب مکین جنت منتقل ہوگئے ہیں۔‘‘ اس ایک گھر کے ہی نہیں غوطہ کے اکثر گھروں کے رہنے والے جنت منتقل ہوگئے ہیں یا زخموں کے جہنم میں جل رہے ہیں اور ہم اپنے گھروں میں شادکام بیٹھے ہیں۔ ایک بچی نے مرنے سے پہلے کہا ’’میں اللہ کو سب کچھ بتادوں گی‘‘ خدا کی قسم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے دربار میں اس بچی کی شکایت رائیگاں نہیں جائے گی۔ امت مسلمہ کا اگر کہیں وجود ہے تو مسلمان ممالک کے ایک ایک حکمران سے سوال ہوگا، اقتدار میں رہنے والے ایک ایک فرد سے میرا ربّ غیظ وغضب کے عالم میں دریافت کرے گا۔ ان سے بھی سوال ہوگا جو سعودی عرب کی مقدس سرزمین میں سینما گھر، کلب اور میوزیکل شوز منعقد کروانے میں مصروف ہیں، ان سے بھی سوال ہوگا جو اپنے آپ کو عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت کہتے ہیں، اس جنرل کو بھی سامنے لاکر کھڑا کیا جائے گا جو کہتا ہے جہاد کرنا ریاست کا کام ہے اور جس نے غوطہ کے ظلم پر لب کشائی کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی۔ اس وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب سے بھی سوال ہوگا جس نے سری دیوی کے مرنے کی تعزیت تو بڑے جوش وخروش سے کی لیکن اہل شام کے باب میں ایک لفظ کہنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ حکمران طبقے کے ان لوگوں سے بھی سوال کیا جائے گا جنہوں نے سندھ سیکرٹریٹ میں ہولی کا جشن منایا۔ میڈیا کے ان نمائندوں سے بھی سوال ہوگا جن کے چینلز پی ایس ایل کے ہنگاموں، سری دیوی کی وفات کی خبروں، فنکاروں کی تعریفوں، میوزیکل پروگراموں اور غیر اسلامی کلچر کے فروغ کے لیے وقف ہیں اور جو مسلمانوں کی موت اور زندگی کے معاملات سے اس طرح غافل اس طرح لاپروا ہیں جیسے ان کے معاملات کہیں لکھے نہیں جارہے، ان سے کہیں کوئی سوال کرنے والا موجود نہیں۔ ان سیاسی ودینی جماعتوں سے بھی سوال ہوگا جو سینیٹ کے الیکشن، آئندہ ہونے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن میں کا میابی کے لیے دن رات جوڑ توڑ اور ہتھکنڈے بازیوں میں مصروف ہیں۔ ان علماء کرام سے بھی سوال ہوگا جن کے پیٹ ان کے مدارس سے بندھے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں سے بھی سوال ہوگا جن کے ہاتھ میں قلم ہے۔ ان لوگوں سے بھی سوال ہوگا جن کے ہاتھ میں مائیک ہیں، جن کے ہاتھوں میں کیمرے ہیں۔ غوطہ کے بچوں کی چیخیں، روتی اور بین کرتی ماؤں کی آہ وزاریاں اور سسکیاں آج وقت کے حکمرانوں کے لیے پریشانی کا باعث نہیں ہیں، ہم سب میں کسی کے دل اور ضمیر کی خلش نہیں ہیں لیکن سب اس وقت کی تیاری کر رکھیں جب وہ اللہ جل جلالہ کے جلال کا سامنا کررہے ہوں گے۔
وہ وقت قریب ہے جب اس دنیا میں تمام اسلامی ممالک میں خلافت راشدہ کا نظام جاری ہوگا۔ بچوں کے محض رونے کی آوازوں سے خلیفہ وقت مضطرب ہوجائے گا۔ اپنی پیٹھ پر راشن کا سامان رکھ کر ضرورت مندوں تک پہنچائے گا۔ محمد بن قاسم جیسے سپاہی اور حجاج بن یوسف جیسے حکمران آئیں گے کہ دیبل جیسے دور دراز علاقے میں راجا داہر کے ظلم کے خلاف مسلمان عورتوں نے پکارا تو انہوں نے ان عورتوں اور بچوں کو بہ عافیت عراق لاکر ہی دم لیا۔ معتصم جیسے حکمران آئیں گے کہ عموریہ کے بادشاہ نے ایک مسلمان عورت پر ظلم کیا۔اس نے پکارا ’’وا معتصماہ‘‘۔ معتصم کو جب اطلاع ملی وہ شربت پی رہا تھا۔ اس نے پیالہ رکھ دیا اور کہا: ’’مجھ پر حرام ہے کہ ایک مسلمان عورت مجھے مدد کے لیے پکار رہی ہو اور میں یہاں لذیذ شربت سے شاد کام ہورہا ہوں‘‘۔ چار ہزار ابلق گھوڑوں پر سوار ہوکر وہ اگلی صبح عموریہ کے لیے روانہ ہوگیا۔ فتح حاصل ہونے کے بعد معتصم اس کنویں تک گیا اور اپنے ہاتھوں سے اس مظلوم عورت کو نکالا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنے اوپر چارپائی پر سونا اور آرام وچین سے بیٹھنا حرام قرار دے رکھا تھا جب تک اہل صلیب سے یروشلم اور فلسطین کے مسلمانوں کے خون کا حساب نہ لے لیا۔ لیکن یہ میں کیا باتیں کر رہا ہوں؟ کن کی مثال دے رہا ہوں؟ یہ مسلم حکمران مومن غیور اور حق کے سپاہی تھے موجودہ مسلم حکمرانوں کی طرح بے غیرت، امریکا، مغرب اور استعمار کے ایجنٹ نہیں تھے۔