حکومت نادہندہ اداروں سے بجلی کے بل وصول کرنے میں ناکام رہی ہے

60

فیصل آباد(وقائع نگارخصوصی)جماعت اسلامی یوتھ کے ضلعی صدرراناعدنان خان نے کہا ہے کہ پاور سیکٹر کا 19.2 ارب کا قرضہ بجلی صارفین سے وصول کرنا انتہائی قابل مذمت ہے۔ حکومت نادہندہ اداروں سے بجلی کے بل وصول کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے، جس سے سسٹم کو 32 ارب روپے سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ اسی طرح لائن لائسز کی مد میں بھی واپڈا کو سالانہ 360 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے، جس کی وجہ سے جہاں ایک طرف عوام کو لوڈشیڈنگ کا عذاب برداشت کرنا پڑتا ہے تو وہاں دوسری طرف ٹیکسوں کی مد میں بھاری بھر کم بجلی کے بل بھی ہرماہ ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چند دن پہلے وفاقی وزیر توانائی نے قوم کو گرمیوں میں لوڈشیڈنگ کی نوید سناتے ہوئے اس بات کا برملا اعتراف کیا تھا کہ حکومت لائن لائسز کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے اور حکومت مسلسل سبسڈی نہیں دے سکتی۔ ابھی موسم گرما کا آغاز بھی نہیں ہوا کہ ملک بھر میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ مرمت کے نام پر گھنٹوں بجلی بند رکھنا معمول بن گیا ہے۔ 6 ماہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرنے کا دعویٰ کرنے والے حکمران اپنے پانچ سال پورے کرنے والے ہیں مگر ابھی تک لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے جتنے بھی وعدے کیے تھے، ان میں سے ایک وعدہ بھی پورا نہیں ہوا۔ مہنگائی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ، کرپشن، لاقانونیت اور دیگر مسائل میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ (ن) لیگ کی حکومت اپنے اقتدار کی پانچ سالہ مدت پوری کرنے والی ہے مگر ان پانچ سال میں عوام کو سوائے مسائل میں اضافے کے کچھ بھی نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی بدولت وسائل سے مالا مال ملک 70 برسوں سے اغیار کے سامنے کشکول پھیلانے پر مجبور ہے۔ اگر حکومت وقت آج فیصلہ کرلے کہ ہم نے غیر ملکی امداد نہیں لینی اور اپنی ضروریات کو ملکی وسائل سے پورا کرنا ہے تو دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ لوڈشیڈنگ جیسا سنگین مسئلہ بھی کچھ عرصے میں حل ہوجائے گا۔ کالا باغ ڈیم قومی بقا کا منصوبہ ہے، جس کی تکمیل سے 50 سے 60 لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو سیراب کرسکتے ہیں اور وافر مقدار میں بجلی کی پیداوار کو یقینی بناسکتے ہیں۔ توانائی بحران کے خاتمے کے لیے حکمران ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں کا سہارا لے کر وقت گزاری کررہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ توانائی بحران پر قابا پانے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کیے جائیں۔