نوٹ کو عزت دو

392

انٹرنیٹ کے ذریعے خرید وفروخت کی عالمی ایجنسی OLX کا پاکستان میں دلچسپ ماٹو کچھ یوں ہے ’’یہاں سب بکتا ہے‘‘۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں جو کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں وہ اس ماٹو کی معمولی لفظی ترمیم کے بعد حالات پر صادق آتا ہے۔ یہ ترمیم یوں بھی ہوسکتی ہے کہ: ’’سینیٹ، جہاں سب بکتے ہیں‘‘۔ اس الیکشن میں سامنے آنے والی کہانیوں کو سنا جائے تو سب نہیں تو ارکان پارلیمنٹ کی اچھی خاصی تعداد اپنا ضمیر فروخت کر چکی ہے۔ یہ ہے وہ آئیڈیل ’’برطانوی‘‘ جمہوریت جو آج سڑکوں پر اپنے لیے مطلق اختیار طلب کرتی ہوئی ماری ماری پھرتی ہے۔ حال اس جمہوریت کا یہ ہے کہ پوری کی پوری جماعت کاغذ کے ٹکڑوں پر منقولہ وغیر منقولہ جائداد کی طرح اگلی نسلوں کو منتقل ہوتی ہے اور چاہتے ہم یہ ہیں کہ برطانوی وزیر اعظم ٹریسامے جیسی طاقت اور اختیار حاصل ہو۔ ٹریسامے کے لباس اور بظاہر دکھائی دینے والے اختیار کے پیچھے چیک اینڈ بیلنس اور مجبوریوں کی کتنی دردناک کہانی ہے اس پر ہم نے کبھی غور نہیں کیا اس لیے ہماری نظر ظاہری چکا چوند پر ہے اور اگر ہم ٹریسامے کے پیروں میں پڑی ہوئی غیر محسوس اور نادیدہ بیڑیاں ہم دیکھیں گے تو پھر شاید ہمیں اپنی ذمے داریوں کا بھی احساس کرنا ہوگا۔ اس لیے ہم زمانے سے بس یہ مطالبہ دہرائے چلے جا رہے ہیں کہ: ’’ووٹ کو عزت دو‘‘۔ بھلا کبھی ووٹر کو عزت دینے کا خیال بھی ہماری سیاسی اشرافیہ کے ذہنوں میں آتا ہے۔ ووٹر کا کام ہماری لغت میں صرف اتنا ہے کہ علاقے برادری، روپے پیسے یا کسی بھی بنیاد پر ووٹ دے کر پولنگ بوتھ سے نکلنے والے آدمی کا کام پانچ سال یا اگلے انتخاب تک ختم ہوگیا۔ اس کی صحت، تعلیم اور روزگار سمیت اب سب کام آنے والے وقت کے حوالے۔ ووٹ ایک بے جان پرچی ہے جو عزت اور بے عزتی کے تکلفات سے بے نیاز ہے۔ اصل احترام اور تقدس کے مستحق وہ ہاتھ ہیں جو اس کا استعمال کرتے ہیں جنہیں حکمران اشرافیہ عملی طور ذلت کی پستیوں میں دھکیلتی چلی جاتی ہے۔ غیر ملکی قرضوں سے لے کر بجٹ اور منی بجٹ کے نام، رزق اور روزگار کے ذرائع محدود کرکے ان پر ذلت کا ہر تاز یانہ برسایا جاتا ہے مگر جب طاقت نمائی کا مرحلہ آئے تو انہیں ہجوم کی شکل میں جمع کرکے متعلقہ قوتوں پر دھاک بٹھا دی جاتی ہے۔
سینیٹ پارلیمانی جمہوریت کا ایوان بالا اور اہم ستون ہے۔ یہ تصور برطانوی دارالامرا سے لیا گیا ہے۔ جس میں تجربہ کار، فہمیدہ، زمانہ شناس ماہرین، ٹیکنوکریٹس، اہل علم منتخب کیے جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو یا تو انتخابات لڑنے کی سکت نہیں رکھتے یا پھر اس جھنجٹ میں پڑنے سے گریزاں رہتے ہیں مگر ریاست اور جمہوری نظام کو ان کی فہم رسا، دانش اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایوان زیریں اگر گرم برقی تار ہوتا ہے تو ایوان بالا ایک ٹھنڈی تار جو اس گرمی اور تندی کو کنٹرول کرتی ہے۔ کیا پاکستان میں سینیٹ یہی کام کر رہی ہے؟۔ یوں توپاکستان میں جمہوریت اور انتخابات پیسے کا کھیل ہو کر رہ گئے ہیں سینیٹ انتخابات میں تو عوام کے نمائندے عوام کے ووٹ کو اس طرح عزت دیتے ہیں کہ وہ او ایل ایکس کے ماٹو ’’یہاں سب بکتا ہے۔‘‘ کی عملی تصویر بن جاتے ہیں۔ سینیٹ انتخابات کا موسم ووٹ سے زیادہ نوٹ کا موسم بن جاتا ہے۔ ضمیروں کے سودے ہوتے ہیں۔ جانوروں کی طرح مول تول ہوتا ہے اور دنیا سے ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کرنے والے اپنے ووٹ کو ڈنکے کی چوٹ پر نیلام کرتے ہیں۔ اس بار بھی چاروں صوبوں اور فاٹا میں یہی عمل دہرایا گیا۔ جن جماعتوں کے ارکان اسمبلی ہی نہیں تھے سینیٹ کی سیٹیں ان کا مقدر بھی ٹھیریں۔ بعض جماعتیں تو ایک دوسرے پر تنقید ہارس ٹریڈنگ کا الزام عائد کررہی ہیں مگر کوئی اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار نہیں۔ ضمیروں کے سودے کو کامیاب سیاسی داؤ گردانا جاتا ہے۔ ایسے میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا مطالبہ جائز اور صائب ہے کہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس سینیٹ انتخابات میں خرید وفروخت کا نوٹس لے کر تحقیقات کا آغاز کریں۔ اب صرف یہ راستہ باقی رہ گیا ہے کہ سینیٹ کو صرف دولت مندوں کے لیے وقف کیا جائے۔ پارلیمنٹ کا فروخت ہونے والا ہر رکن ووٹ کو عزت دینے کے اس عمل میں کروڑ پتی بن بیٹھا۔ خیبر سے کراچی تک فروخت ہونے والوں کا ریٹ کروڑوں میں رہا گویا کہ کھیل اب لاکھوں میں بھی نہیں رہا۔ سب سے حیران کردینے والی خبر فاٹا سے آئی ہے جہاں ووٹ کو یوں عزت ملی کہ اسے انتہائی مہنگے داموں فروخت کیا گیا اور یہ قیمت فی ووٹ چار کروڑ رہی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ بولی بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ بات چار کروڑ تک جا پہنچی۔ حد تو یہ جن ارکان نے اپنی پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دیے حکمران جماعت نے انہیں وفاداری نبھانے کے انعام کے طور پر تین تین کروڑ روپے دیے۔ ارکان سینیٹ کے انتخاب کا یہ معرکہ نوٹوں کی جھنکار میں اختتام پزیر ہوا اور اب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کا بازار سج گیا ہے۔
کسی بھی جماعت کو چیئرمین منتخب کرانے کے لیے ترپن ووٹ درکار ہیں۔ مسلم لیگ ن کے پاس اڑتالیس ووٹ ہیں۔ بلاول زرداری یہ کہہ کر ابا حضور کے ہاتھ کا کمال دکھانے کا اشارہ دے چکے ہیں پیپلزپارٹی سب سے بڑی پارٹی ہے اور ہم اپنا چیئرمین لائیں گے۔ یہ مسلم لیگ ن کے رنگ میں بھنگ ڈالنے والی بات ہے اور اس ایک جملے کے بعد ووٹ کو اس قدر عزت ملنے کا امکان موجود ہے کہ سینیٹ انتخاب میں فاٹا کے ارکان کی طرف سے ووٹ کو عزت دینے کا ریکارڈ بھی ٹوٹ جائے گا۔ ووٹ کو عزت دینے کا مطلب شاید اب یہی باقی رہ گیا ہے کہ اس کی قیمت زیادہ سے زیادہ ہو۔ معزز عوامی نمائندوں اور جمہوری ایوانوں کو تاریخ کے کسی بھی دور میں کوئی قاضی حسین احمد گندگی کا ڈھیر قرار دے یا کوئی عمران خان گند قراردے اس پر تیوری چڑھانا بنتا نہیں۔