فاٹا عدالتی بل

180

اکثر سیا سی قائدین کی طرح قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے بعض ماہرین قانون نے بھی اعلیٰ عدالتوں کی قبائلی علاقوں تک توسیع کے نیم دلانہ اقدام پر تنقید کرتے ہوئے اعتراض اٹھایا ہے کہ یہ بل قبائلی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس ضمن میں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سابق رکن قومی اسمبلی عبدالطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کی قبائلی علاقوں تک توسیع کے حالیہ بل میں کئی قانونی اور آئینی سقم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ بل کو حکومت نے تمام قبائلی علاقوں تک یک بارگی توسیع دینے کے بجائے اسے جہاں حکومتی نوٹیفکیشن سے مشروط کیا ہے وہاں اس کے نفاذ میں حکومت کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ منظور شدہ بل کا نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے اس کے نفاذ کے دائرہ کار کو مخصوص علاقوں تک محدود کر سکتا ہے یعنی اگر حکومت چاہے تو منظور شدہ بل کو ایک وقت میں نافذ کرنے کے بجائے قسطوں میں باری باری مختلف علاقوں میں نافذ کر سکتی ہے۔ اسی طرح قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے فاٹا لائرز فورم کے صدر اور معروف ماہر قانون اعجاز مہمند ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ اس بل کے ذریعے حکومت نے انضمام مخالف جماعتوں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اعجاز مہمند کا کہنا ہے کہ نئے قانون کی منظوری کے وقت اس میں ایف سی آر کے یک دم خاتمے کی شق بھی شامل ہونی چاہیے تھی جب کہ اس کے ساتھ ساتھ اس قانون کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک اس کے لیے درکار انفرا اسٹرکچر قائم نہیں کر دیا جاتا۔ ان کا کہنا ہے اس فیصلے کا فاٹا انضمام کے بغیر قبائل کو کوئی خا ص فائدہ نہیں ہوگا کیوں کہ موجودہ انتظامی ڈھانچے کی موجودگی میں حالیہ قانون کی مثال محض پیوند کاری کی ہوگی جس سے قبائل کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدگی اختیار کر سکتے ہیں۔
اس بحث سے قطح نظر حالیہ بل کی منظوری جو عملًا قبائل کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے اور جس کے لیے قبائل پچھلے ستر سال سے جد و جہد کر رہے ہیں کی نیم دلانہ منظوری کے باوجود اس پر متعلقہ حلقوں نے جو سرد مہری دکھائی ہے اس سے بھی یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ قبائل کے ساتھ اب تک جو امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے وہ بلاوجہ نہیں ہے۔ اس سرد مہری اور قبائل کو دوسرے بلکہ تیسرے درجے کا شہری سمجھنے کے پیچھے دراصل مقتدر حلقوں کی منفی اور امتیازی سوچ کار فرما رہی ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ حلقے جو قوانین ملک کے دیگر علاقوں کے لیے مفید سمجھتے رہے ہیں وہی قوانین قبائلی علاقوں میں بھی بلاچون وچرا نافذ کرتے۔ قومی اسمبلی سے منظور شدہ بل سے متعلق سوالات اور اعتراضات کے بارے میں وفاقی وزیر سیفران اور سرتاج عزیز کمیٹی کے رکن عبدالقادر بلوچ کا کہنا ہے کہ یہ تمام سوالات اور اس سلسلے میں ممکنہ خدشات اور مشکلات پہلے ہی سے ہماری نظر میں تھے لیکن ہمیں مجوزہ اصلاحات کا آغاز کہیں سے تو کرنا تھا لہٰذا ہمارے پاس انضمام کی حتمی منزل تک پہنچنے کے لیے بتدریج پیش رفت کے سوا اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ انضمام کی راہ میں چوں کہ سب سے بڑی آئینی اور قانونی رکاوٹ ایف سی آر کا نظام تھا اس لیے پہلے مرحلے میں اس کا خاتمہ اور اس کے متبادل کے طور پر ملک کے مروجہ عدالتی نظام کی قبائلی علاقوں تک توسیع ایک قانونی ضرورت تھی اور اسی ضرورت کو پورا کر نے کے لیے قومی اسمبلی سے یہ بل منظور کیا گیا ہے جو جلد ہی سینیٹ سے بھی واضح اکثر یت کے ساتھ پاس کروا لیا جائے گا۔
یہ بات بجا ہے کہ قومی اسمبلی کا پاس کردہ بل کئی حوالوں سے تنقید کی زد میں ہے اور یہ یقیناًقبائل کی ان خواہشات اور امنگوں کا آئینہ دار نہیں ہے جس کی آس وہ موجودہ حکومت اور خاص کر سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات سے لگائے ہوئے تھے لیکن اگر اس اقدام کو بارش کا پہلا قطرہ ہی سمجھ لیا جائے تب بھی کم ازکم میڈیا کو اس اقدام کا وہ بلیک آؤٹ نہیں کرنا چاہیے تھا جس کا مظاہرہ اس بل کی منظوری پر خاموشی اور اس میں پائی جانے والی خامیوں کی عدم نشاندہی کی صورت میں کیا جا رہا ہے۔