شہباز شریف کا بیانیہ کیا ہوگا؟

312

شریف خاندان کے اجلاس میں جسے مسلم لیگ (ن) کی مجلس عاملہ کا اجلاس قرار دیا جارہا ہے۔ میاں نواز شریف کو پارٹی کا تاحیات قائد اور برادر خُرد میاں شہباز شریف کو پارٹی کا صدر مقرر کردیا گیا ہے۔ عہدوں کی اس بندر بانٹ پر ہمیں اے این پی یاد آگئی جس کے سربراہ عبدالولی خان ہوا کرتے تھے جب وہ بیمار ہوئے اور بڑھاپے کی وجہ سے پارٹی چلانے کے قابل نہ رہے تو انہوں نے پارٹی کی صدارت اپنے بیٹے اسفند یارولی کے سپرد کردی اور خود پارٹی کے تاحیات ’’رہبر‘‘ بن بیٹھے۔ میاں نواز شریف بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے نہیں، عدالتی فیصلے کی وجہ سے یہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اگر ان کے دونوں بیٹوں میں سے کوئی بیٹا سیاست میں فعال ہوتا تو بلاشبہ قرعہ فال اسی کے نام نکلتا لیکن دونوں ماشا اللہ اپنے کاروبار میں مگن ہیں وہ پاکستان میں رہنا بھی نہیں چاہتے، رہی میاں صاحب کی دختر نیک اختر مریم صفدر تو اگرچہ وہ اپنے والد محترم کے ساتھ پورے قد سے کھڑی ہیں اور ان سے بڑھ کر سیاست میں حصہ لے رہی ہیں اور میاں صاحب کی خواہش بھی یہی ہے کہ وہ ان کی جانشین بنیں لیکن وہ جو شاعر نے کہا ہے کہ
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
تو میاں صاحب کی اس خواہش کے پورے ہونے میں بھی بہت سی رکاوٹیں حائل تھیں چناں چہ انہیں مجبوراً صدارت کا تاج اپنے چھوٹے بھائی کے سر پہ رکھنا پڑا۔ البتہ انہوں نے تاحیات قیادت کا لبادہ اوڑھ کر پارٹی کی باگ اپنے ہاتھ ہی میں رکھی ہے اور اس عدالتی فیصلے کو بڑی عیاری سے ناکام بنادیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ جو شخص کنگ بننے کا نااہل ہو اُسے کنگ میکر بھی نہیں بنایا جاسکتا۔ معزز عدلیہ کے شہ دماغوں نے یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ کنگ میکر صدر کے بجائے ’’قائد‘‘ کے روپ میں بھی آسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو قائد ہوگا وہی پارٹی کی قیادت بھی کرے گا اور صدر اس کی قیادت تسلیم کرنے اور اس کے احکام ماننے کا پابند ہوگا، پھر یہ تو گھر کا معاملہ ہے صدر کوئی غیر نہیں قائد کا چھوٹا بھائی ہے وہ قائد کا حکم کیسے نہیں مانے گا؟ لیکن
مقطع میں آپڑی ہے سخن کسترا نہ بات
قائد محترم اس وقت کھلم کھلا عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی پر تلے ہوئے ہیں، وہ عدلیہ کے ہر فیصلے کو غلط اور تعصب پر مبنی قرار دے رہے ہیں، عوام کو عدلیہ کے خلاف بغاوت پر اُکسا رہے ہیں اور نام نہاد تحریک عدل کی آڑ میں وہ پورے عدالتی نظام کو لپیٹنا چاہتے ہیں۔ میڈیا اس محاذ آرائی کو نواز شریف کے بیانیے کا عنوان دے رہا ہے اور ان کے حامی کالم نگار اپنے قارئین کو یہ تاثر دینے میں مصروف ہیں کہ نواز شریف کا بیانیہ عوام میں مقبول ہورہا ہے اور ان کے جلسوں میں لوگ بھاری تعداد میں شرکت کرکے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کررہے ہیں۔ قائد عوام کی صاحبزادی بھی اپنی تقریروں، بیانات اور ٹویٹس کے ذریعے اس تاثر کو مزید تقویت دے رہی ہیں، ہمارے دوست کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کے جارحانہ بیانیے نے عوام کو تماشائی بنادیا ہے اور وہ ان کے جلسوں میں اظہار یکجہتی کے لیے نہیں تماشا دیکھنے جارہے ہیں۔ جوں جوں احتساب عدالت کے فیصلے کا وقت قریب آرہا ہے قائد محترم کی تشویش بھی بڑھتی جارہی ہے اور عدلیہ کے خلاف ان کے بیانیے میں بھی شدت آرہی ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ انہوں نے احتساب عدالت میں اپنے خلاف الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا، اپنے دفاع میں کوئی دستاویزی ثبوت پیش نہیں کیے۔ اس لیے قانون کے مطابق سزا لازمی ہے، ممکن ہے جیل ہوجائے اور ممکن ہے کہ جائداد ضبط کرنے کا حکم صادر ہوجائے۔ قائد محترم کا بیانیہ یہ ہے کہ وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں انہیں سزا دینا، انہیں وزارت عظمیٰ سے نکالنا، انہیں پارٹی کی صدارت سے ہٹانا، یہ سب عوام کے ووٹوں کی توہین ہے۔ عدلیہ کے پانچ افراد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ایک منتخب نمائندے کو سزا دے کر عوام کے ووٹوں کی توہین کریں، وہ ووٹ کے تقدس کو بحال کرانا چاہتے ہیں، اسی لیے موجودہ عدلیہ کے خلاف میدان میں نکلے ہیں۔ یہ عدلیہ انہیں سزا دے کر انصاف نہیں ناانصافی کو فروغ دے رہی ہے یہ ناانصافی عوام کے ساتھ ہے، عوام کے ووٹوں کے ساتھ ہے اور وہ یہ انصافی نہیں ہونے دیں گے۔ قائد محترم کے ناقدین کہتے ہیں کہ اگر میاں نواز شریف کا یہ بیانیہ درست تسلیم کرلیا جائے تو ملک میں عدل و انصاف کا تصور ہی بدل جاتا ہے اور ہر اس شخص کو لوٹ مار، اختیارات کے ناجائز استعمال اور کرپشن کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچتا ہے اور کسی عوامی منصب پر فائز ہوجاتا ہے، پھر اس پر کوئی عدلیہ احتساب کا کوئی ادارہ ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ کیا اس طرح ملک میں انصاف قائم ہوسکتا ہے اور کیا ریاستی ادارے اپنی ساکھ برقرار رکھ سکتے ہیں؟
مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد اپنا مافی الضمیر کھل کر بیان کررہے ہیں وہ کسی لگی لپٹی کے قائل نظر نہیں آتے لیکن سوال یہ ہے کہ پارٹی کی صدارت جس کے سپرد کی گئی ہے اس کا بیانیہ کیا ہے، میاں شہباز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر کی حیثیت سے پارٹی کو کس رُخ پر لے جانا چاہتے ہیں، کیا وہ بھائی کی بات مانیں گے اور پارٹی کو ریاستی اداروں کے ساتھ تصادم کی راہ پر لے جائیں گے یا مفاہمت اور مصالحت کی پالیسی اختیار کریں گے اور پارٹی کو قانون اور عدالتی فیصلوں کے آگے سرنڈر کردیں گے، ان کی عمومی شہرت یہی ہے کہ وہ ریاستی اداروں کے ساتھ تصادم کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کی اصل آزمائش اس وقت ہوگی جب احتساب عدالت کا فیصلہ میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف آئے گا۔ میاں نواز شریف کا نامزد کردہ وزیراعظم یہ کہہ چکا ہے کہ اگر میاں صاحب کو سزا ہوئی تو پھر جنگ ہوگی۔ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ جنگ کس کے خلاف ہوگی، ایسے میں میاں شہباز شریف کا بیانیہ کیا ہوگا؟ میاں شہباز شریف پارٹی صدر تو بن گئے ہیں لیکن انہیں دوطرفہ آزمائش کا سامنا ہے۔