گزشتہ ماہ کی 23تاریخ کو آزاد جموں وکشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور بالخصوص کنٹرول لائن کی صورت حال پر غور کیا گیا۔ ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ کنٹرول لائن پر امن کی پالیسی جاری رہے گی۔
24فروری جس روز یہ خبر شائع ہوئی اسی دن اخبارات کے پہلے صفحہ پر خبر تھی: ’’ایل او سی پر بلا اشتعال بھارتی فائرنگ سے نوجوان شہید۔ 19 سالہ انضمام امین کو تیتری نوٹ میں واقع کرشنگ پلانٹ پر کام کے دوران نشانہ بنایا، غیر ملکی دفاعی اتاشیوں کا کنٹرول لائن کا دورہ۔ پاک فوج نے بھارتی اشتعال انگیزی پر بریفنگ دی‘‘۔
25فروری کو تمام اخبارات میں خبر تھی: کنٹرول لائن: بلااشتعال بھارتی فائرنگ سے ایک اور نوجوان شہید۔ بھارتی فوج نے 1200 میٹر دور تھرٹی نار گاؤں پر بلا اشتعال فائرنگ کی اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا۔ زخمیوں کو اسپتال منتقل کردیا گیا۔
26فروری: کنٹرول لائن: بھارتی فائرنگ میں تیزی، آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا منصوبہ تیار۔ گزشتہ ایک ہفتے سے بھارتی فوج کی گولہ باری اور فائرنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ خواجہ بانڈی، لڑی لڑواراں، سرجی دار اور آگی واس کے گاؤں بری طرح متاثر۔ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔
27فروری: کنٹرول لائن رتہ سیکٹر پر بھارتی فوج کی مسلسل سیز فائر لائن کی خلاف ورزی۔ سول آبادی پر بلا اشتعال گولہ باری۔
28فروری: کنٹرول لائن: بھارتی فائرنگ سے بچہ شہید۔ 13سالہ زین کو نکیال سیکٹر میں نشانہ بنایا گیا۔ تین افراد زخمی۔
صدر آزاد کشمیر اور آرمی چیف کی ملاقات میں امن کی جس پالیسی پر کاربند رہنے کی بطور حکمت عملی تکرار کی گئی ہے اس کے جواب میں بھارتی گولہ باری اور فائرنگ سے پاکستانی شہریوں کی شہادت اور زخمی ایک تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ چند دنوں کا احوال ہم نے بیان کردیا اس کے بعد کے ایام میں بھی صورت حال یہی ہے۔ ایک عرصے سے ہم نے کنٹرول لائن پر بھارت کے مقابل امن اور مصالحت کو پالیسی کے طور پر اپنایا ہوا ہے۔ اس پالیسی پر بہت نازاں ہیں۔ پاکستانی شہریوں کی بھارتی افواج کے ہاتھوں روزانہ بنیاد پر شہادتوں کے باوجود اس پالیسی کا بار بار فخریہ اس طرح اعلان کیا جاتا ہے جیسے ہلاک ہونے والوں کی زندگی کا تحفظ پاک فوج کی ذمے داری نہیں یا پھر ہلاک ہونے والے ایسے حشرات الارض تھے جن کی زندگی اور موت کی کوئی معنویت نہیں۔ ایسی فوج کس طرح اپنا رشتہ اور تعلق اسلام سے جوڑ سکتی ہے جس کے نبی رسالت مآب ؐ کا طریق یہ تھا کہ آپؐ ایک ایک مسلمان کی جان اور مال کے تحفظ کو انتہائی اہمیت دیتے تھے۔ اس سلسلے میں کسی پس وپیش سے کام نہیں لیتے تھے اور آگے بڑھ کر اقدام کیا کرتے تھے۔ بنو قینقاع کے بازار میں ایک مسلمان عورت کسی یہودی سنار کی دکان پر گئی۔ جب وہ اس دکان پر بیٹھی ہوئی تھی تو پیچھے سے ایک یہودی نے نکیلے کانٹے میں اس عورت کے لباس کا پچھلا حصہ پھنسا دیا۔ جب وہ کھڑی ہونے لگی تو بے پردہ ہوگئی۔ یہودی مسلمان عورت پر ہنسنے لگے۔ عورت نے چیخ پکار کی۔ ایک مسلمان آگے بڑ ھا اور یہودی کو قتل کردیا۔ یہودیوں نے مسلمان کو گھیرا اور مارڈالا۔ یوں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تنازع پیدا ہوگیا۔ رسول اکرمؐ کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو آپؐ مسلمانوں کو لے کر نکلے اور بنو قینقاع کا محاصرہ کرلیا۔ رسول اللہ نے اکابر صحابہ کے مشورے سے یہودی کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا لیکن عبداللہ ابن اُبی ابن سلول کے بار بار کہنے پر اس پر احسان کی غرض سے یہودیوں کو قتل نہ کیا لیکن بنو قینقاع کو مدینہ سے جلاوطن کردیا۔
ہماری تمام جنگی صلاحیتوں اور حکمت عملی کا مرکزو محور بھارت کو اپنی سرحدوں میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں چاہے جتنا ظلم وستم کرلے آئے دن پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتا رہے۔ پاکستانی شہریوں کو شہید اور زخمی کرتا رہے۔ آبادیوں کو بربادکرتا رہے۔ ہم آبادیوں کو منتقل کرنے، بھارت سے احتجاج کرنے یا پھر حد سے حد جوابی فائرنگ میں مصروف ہیں اور اپنی اس دفاعی پالیسی پر نازاں ہیں۔ ہم یہ بھول گئے ہیں کہ دفاع ایک وقتی اور عارضی بندوبست ہوتا ہے۔ دشمن کے مقابل اپنے وجود کو برقرار رکھنے کا مستقل انتظام نہیں۔ سر باسل ہنر ی لڈل ہارٹ دفاع کو ایک ’’رکا ہوا حملہ Attack Halted‘‘ قرار دیتا ہے۔ اس کے بعد جب تک حملہ نہ کیا جائے کامیابی ممکن نہیں۔ جب تک کوئی قوم جارحانہ عزائم نہیں رکھتی اس وقت تک کسی قابل ذکر کامیابی کا حصول ممکن نہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی اولین جنگیں دفاعی تھیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ مدینہ میں اسلام کے مخصوص مفہوم اور تصورات کو زندگی کا ضابطہ حیات اور مرکز بنا دینے کے ساتھ ساتھ آپؐ ان تیاریوں میں بھی مصروف تھے جن کے ذریعے آپ کفر کی مادی طاقت کو مادی طاقت کے ذریعے مٹاسکیں۔ یوں آپؐ نے پہل کرتے ہوئے جہاد کی قوت سے ان رکاوٹوں کو ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ اسلام کی دعوت کو مدینہ سے باہر پھیلانے کے لیے آپ ؐ نے ایک فوج تیار کی اور ازخود ایسے اقدامات کیے جن سے یہودیوں اور منافقین پر رعب طاری ہوا اور بڑی جنگوں کا ماحول پیدا ہوا۔ جزیرہ نما عرب میں گشت
اور فوجی مہمات کی روانگی کے ذریعے آپ نے پہل کرتے ہوئے قریش کو چیلنج کیا جس کا نتیجہ غزوہ بدر کی صورت میں رونما ہوا۔ جو مسلمانوں کی فتح اور قوت میں اضافے کا باعث بنا۔ غزوہ خندق میں آپؐ نے دفاعی حکمت عملی اپنائی لیکن دفاع کو مستقل آپشن قرار دینے کی بجائے آپؐ نے اسے ایک رکا ہوا حملہ باور کیا اور مکہ پر حملہ کرکے اسے فتح میں تبدیل کردیا۔ جب رومی لشکر اسلامی سرحدوں پر جمع ہونا شروع ہوا تو آپؐ نے دفاع پر انحصار نہیں کیا بلکہ پورے عرب کو قابل حرب ٹروپس سے خالی کرکے تیس ہزار کا لشکر ’’جیش العسرہ‘‘ لے کر تبوک کی طرف روانہ ہوئے۔ مسلمانوں کی اس پیش قدمی اور جارحانہ کارروائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ رومیوں نے تبوک سے پیچھے ہٹ کر شام میں محصور ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔ آپ ؐ نے ثابت کردیا کہ اسلام کا تصور جنگ دفاعی نہیں جارحانہ ہے۔ مسلمانوں نے مدینہ تک محدود رہنے کے بجائے باہر کی طرف دیکھا اور پوری دنیا پر چھا گئے۔ مغربی اقوام نے یہ جارحانہ حکمت عملی مسلمانوں سے مستعار لے کر دنیا بھر میں کامیابیاں حاصل کیں۔ بر طانیہ محض چار جزیروں کا چھوٹا سا ملک تھا لیکن اس پالیسی پر عمل کرکے اس نے صدہا سال دنیا کو اپنا غلام بنائے رکھا۔ جرمنی نے بیسویں صدی میں باہر کی طرف دیکھا اور اکیس برس کی قلیل مدت میں دنیا کی دو بڑی سلطنتوں کو روند ڈالا۔ اسرائیل پہلے دن سے اپنی سرحدوں سے باہر دیکھ رہا ہے۔ آج تمام عرب ممالک اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ چار چھوٹی بڑی جنگیں لڑیں لیکن کوئی فائدہ نہیں اٹھایا سوائے نقصان کے۔ ہم جارحانہ کے بجائے محض دفاعی حکمت عملی تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ ہم نے باہر کی طرف دیکھنا بند کردیا ہے۔ ہم اندروں بیں ہوگئے ہیں آج ہم ایٹمی قوت ہونے، دنیا کی بہترین لڑاکا افواج رکھنے اور جدید ترین اسلحے سے لیس ہونے کے باوجود غریب کی جورو بنے ہوئے ہیں۔ کمزور اور بے بس۔