مگر مچھ کے آنسو!

277

گزشتہ بدھ کو پیپلزپارٹی کے جیالوں نے پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا اور کارکنوں سے سڑکوں پر نکلنے کی اپیل کردی ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری رکنی چاہیے۔ کہا جارہاہے کہ اس کے پیچھے شاہد خاقان عباسی کا ہاتھ ہے۔ لیکن دوسری طرف اسی دن 2012ء سے تنخواہ سے محروم سیکڑوں اساتذہ نے پیپلزپارٹی کے ایک اجتماع میں احتجاج کیا۔ اساتذہ بھی اس سے پہلے سڑکوں پر نکلتے رہے ہیں لیکن ان پر تو سندھ حکومت کی پولیس دھاوا بول دیتی ہے اور پکڑ دھکڑ بھی کرتی ہے۔ کیا یہی سلوک پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف سڑکوں پر نکلنے والوں کے ساتھ کیا جائے گا۔ ہرگز نہیں کیونکہ یہ احتجاج سندھ حکومت کے خلاف نہیں وفاق کے خلاف ہوگا اور سندھ پولیس ان جیالوں کی حفاظت پر مامور ہوگی۔ گزشتہ روز شہید عبداﷲ مراد کی 14ویں برسی پر پیپلزپارٹی کی قیادت موجود تھی۔ اس موقع پر سیکڑوں اساتذہ نے سخت احتجاج کیا جن کو 6 سال سے تنخواہ نہیں مل رہی۔ سیکرٹری تعلیم اور وزیر تعلیم کو چند ماہ تک تنخواہ نہ ملے تو ان کے پاس گھر چلانے کے اور بہت سے ذرائع ہیں مگر ان اساتذہ کے گھروں کے چولہے اور آنکھوں کی چمک دونوں بجھ گئی ہیں۔ ڈھٹائی کی انتہا یہ ہے کہ پی پی کراچی کے ایک رہنما نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ آج کراچی کا کوئی بڑا مسئلہ ہے تو ان اساتذہ کا ہے جن کو تنخواہ نہیں مل رہی۔ فرمایا کہ اس مسئلے کو جنگی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ 6 سال سے تو ان کی پکار پر کان نہیں دھرے گئے لیکن کسی سنگین مسئلے کو ٹالنے اور دبانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ذمے داران خود بھی ہاں میں ہاں ملانے لگیں۔ دیکھتے ہیں ان مظلوموں کو کب تک تنخواہ ملے گی۔