اگر آپ کراچی سے مشرقی سمت میں نیشنل ہائی وے پر چلنا شروع کریں تو دس بارہ کلو میٹر بعد سیدھے ہاتھ پر پاکستان اسٹیل کے بورڈ نظر آئیں گے اور اگر آپ اس رخ پر مڑ جائیں تو فیکٹریوں، پاور پلانٹ، لوہے کے گودام، ریلوے لائن، فورک لفٹرز وغیرہ کا ایک سلسلہ آپ کا استقبالیہ کرے گا لیکن نہ تو کسی بھٹی میں آگ جل رہی ہوگی نہ کوئی فورک لفٹر وزن اٹھاتا نظر آئے گا اور نہ ہی کسی فیکٹری کے چلنے کی آواز آپ کو سنائی دے گی ہاں البتہ کہیں کہیں لوہے یا اسٹیل کی زنگ آلود شیٹوں کا ذخیرہ آپ کو باخبر کرے گا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں اسٹیل اور لوہے کی پیداوار ہوتی تھی اور یہ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی پروجیکٹ ہے جو آج کل بندہے اور اس کی خریدو فروخت کی باتیں ہورہی ہیں یہ وہ پروجیکٹ ہے جو 19000 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے جس میں سے 10 ہزار ایکڑ اسٹیل کی پیداوار کے مختلف پلانٹ پر مشتمل ہے جب کہ 8 ہزار ایکڑ رقبے پر رہائشی مکانات بنے ہوئے ہیں۔ 200 ایکڑ پر ایک بڑا ذخیرہ آب موجود ہے۔ اور تمام ہی ارباب اقتدار کی نظر اس کی زمینوں پر ہے۔
پاکستان کے پہلے پنج سالہ منصوبے میں پاکستان کی سائنسی و صنعتی کونسل (PCSIR) نے ملک میں ایک اسٹیل ملز کی ضرورت کا خیال پیش کیا تھا بعد میں پچاس کی دہائی میں روسی وزیراعظم نکلولائی بلگان اور پاکستان کے وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا۔ 20 سال بعد جنرل یحییٰ خان نے اس میگا پروجیکٹ کی منظوری دے دی، جس کے بعد پاکستان اسٹیل ملز کارپوریشن لمیٹڈ ایک کمپنی کی شکل میں قائم کی گئی جسے سندھ میں تعمیر کیا جانا تھا۔ اس منصوبے کی تعمیر و تکمیل کے لیے پاکستان نے مالی و تکنیکی امداد کے لیے امریکا اور روس کی طرف اپنا ہاتھ پھیلایا۔ امریکا اس کے لیے تیار نہ ہوا جب کہ روس اس کے لیے تیار ہوگیا۔ چناں چہ 1969ء میں روس اور پاکستان کے درمیان اس منصوبے کے قیام کا سمجھوتا ہوا۔ جب کہ 1971ء میں روس کی طرف سے مالی اور تکنیکی امداد کا معاہدہ ہوا اور اس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے 30 دسمبر 1972کو اس کا افتتاح کیا جس کے بعد روسی انجینئرز، ماہرین اور ٹیکنیکل اسٹاف نے پاکستان آکر اسٹیل ملز کے انجینئرز، اسٹاف اور ملازمین کو ٹریننگ دی۔ سیکڑوں انجینئرز و ملازمین ٹریننگ کے لیے روس بھی بھیجے گئے۔ تیکنیکی اعتبار سے اسٹیل ملز کا اہم حصہ بلاسٹ فرینس ہے جہاں کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہوتا ہے اور وہاں لوہے کی کچ دھات (ore) سے لوہا اور اسٹیل بنتا ہے۔ 14 اگست 1981ء کو پہلی بلاسٹ فرینس نے کام شروع کیا اور اس طرح پاکستان لوہے اور اسٹیل تیار کرنے والے ممالک میں شامل ہوگیا۔ جب کہ اسٹیل ملز کی مختلف فیکٹریوں، بھٹیوں اور آبی ذخیرہ کرنے کے مراکز کی تکمیل 15 جنوری 1985ء کو ضیا الحق کے ہاتھوں ہوئی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جو حال دوسرے سرکاری اداروں کا ہوتا ہے وہی اسٹیل مل کا ہوا۔ بڑی تعداد میں سیاسی بنیادوں پر ملازمین کی بھرتیاں ہوئیں، کرپشن، بے ایمانی اور ناقص کارکردگی نے اس میگا پروجیکٹ میں ڈیرے ڈال لیے، صرف میڈیکل کے شعبے میں ہر سال کروڑوں روپے کا غبن ہونے لگا۔ اشیا و خام مال کی خریداری میں کرپشن عروج پر تھی ، وہ اسٹیل ملز جس کی پیداواری صلاحیت 1.1 سے لے کر کر 5 ملین ٹن لوہے کی تھی نصف پر آگئی۔ ان حالات کو دیکھ کر وزیراعظم شوکت عزیز نے سال 2006ء میں اسٹیل مل کی نجکاری کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے ایک کنسورشیم بنایا گیا جس میں 3 گروپ تھے۔ سب سے بڑا گروپ سعودی تھا یعنی الطواری گروپ تھا۔ وہ اس اسٹیل ملز کے ساتھ ایک اور مل لگانا چاہتا تھا اور اس نے 300 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کردی تھی دوسرا ایک روسی گروپ تھا جب کہ تیسرا پاکستانی یعنی عارف حبیب گروپ تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ یہ نجکاری کا عمل پورا ہوتا ایک غیر معروف وطن پارٹی نے عدالت عظمیٰ میں اس عمل کے خلاف پٹیشن دائر کردی اس وقت کے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے اسٹیل مل کی نجکاری کے خلاف فیصلہ دے دیا اور آرڈر کیا کہ معاملے کو مشترکہ مفادات کی کونسل میں دوبارہ لے جایا جائے۔ اس وقت کے معروف قانون داں جناب خالد انور نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کردی جو ایک عرصے تک سنی نہ گئی اور ایک موقع پر جب خالد انور صاحب ملک سے باہر تھے تو تاریخ لگا کر اپیل مسترد کردی گئی۔ حال ہی میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس معاملے کو دوبارہ سننے کے لیے ایک بڑا نو رکنی بنچ تشکیل دیا ہے۔
پچھلے سال چیئرمین نجکاری کمیشن محمد زبیر خان نے اعلان کیا کہ سال 2017ء میں پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے اور آئل اینڈ گیس ترقیاتی کارپوریشن کو پرائیویٹائز کردیا جائے گا۔ حکومت کو جلدی اس لیے ہے کہ اسحاق ڈار صاحب آئی ایم ایف سے جو 6.7 ارب ڈالر کا قرضہ لیا تھا اس میں دیگر شرائط کے علاوہ ان اداروں کی نجکاری بھی شامل ہے۔ لیکن سیاسی مخالفت کی وجہ سے گزشتہ سال نجکاری کا عمل نہ ہوسکا اب حکومت دوبارہ کچھ دوسرے اقدامات کرنے والی ہے لیکن موجودہ حکومت شاید کچھ نہ کرسکے اس لیے کہ اس کے پاس وقت بہت کم ہے۔ دوسری طرف اسٹیل ملز پر نیشنل بینک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے واجبات بڑھتے چلے گئے۔ جس کے بعد جون 2015ء میں سوئی سدرن گیس کمپنی نے اسٹیل ملز کو گیس کی سپلائی بند کردی جو اس وقت 33 فی صد پیداواری صلاحیت کے ساتھ کام کررہی تھی۔ اس طرح جولائی 2017ء تک اسٹیل ملز کا خسارہ 177 ارب تک پہنچ گیا ہے ایک دوسرے اندازے کے مطابق اس وقت ہر ماہ 1.4 ارب روپے کا خسارہ ہورہا ہے۔ پچھلے دنوں حکومت نے 18.5 ارب روپے کا ایک بیل آؤٹ پیکیج دیا تھا تا کہ ضروری اخراجات پورے ہوسکیں اور ملازمین کو تنخواہیں ادا کی جاسکیں۔ اسی طرح پاکستان اسٹیل کو 30 سال کے لیے لیز پر دینے کی بات بھی چل رہی ہے لیکن اس کے لیے پاکستان حکومت کو 180 ارب کے واجبات کلیئر کرنا ہوں گے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اسٹیل ملز کے حالات جیسے ہیں ایسے ہی چلتے رہیں گے جو کچھ بھی ہوگا وہ اگلی حکومت کی تشکیل کے بعد ہی ہوسکے گا۔