آنکھیں اب کھلی ہیں

418

پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے فرمایا ہے کہ امریکا کو افغانستان میں امن سے کوئی غرض نہیں۔ بات تو صحیح ہے لیکن پاکستانی وزیر خارجہ کو اب پتا چلا ہے۔ 2001ء سے اب تک پاکستان کے تمام حکمران، جن میں خواجہ صاحب کے ممدوح میاں نواز شریف بھی شامل ہیں اور فوج کے سربراہ بھی، افغانستان پر امریکا کے ناجائز اور ظالمانہ قبضے کو سراہتے اور ہر ممکن مدد فراہم کرتے رہے ہیں۔ کمانڈو جنرل پرویز مشرف نے تو پورا ملک ہی امریکا کے حوالے کردیا تھا اور ایک ٹیلی فون کال پر اس جانباز آرمی چیف نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ لیکن 2013ء سے اب تک خواجہ آصف کی ن لیگی حکومت نے کیا کیا؟ کیا کہیں امریکا کو فراہم کردہ امداد اور پاک سرزمین کے استعمال میں کوئی رکاوٹ ڈالی؟ ہرگز نہیں۔ اب جو امریکی صدر ٹرمپ نے بے وفا محبوب کی طرح آنکھیں پھیری ہیں اور نہ صرف امداد روک لی بلکہ دھمکیاں بھی دی گئیں تو خواجہ آصف کو یاد آیا کہ امریکا کو افغانستان میں امن سے کوئی غرض نہیں۔ لیکن کیا انہیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ امریکا کو دنیا میں کہیں بھی امن سے دلچسپی نہیں اور خود اس نے مختلف ملکوں میں بد امنی اور غارت گری کو ہوا دی ہے تاکہ اس کے جنگی عزائم پورے ہوتے رہیں اور اس کا اسلحہ فروخت ہوتا رہے۔ مشرق وسطیٰ میں جو صورتحال پیدا کردی گئی ہے اس میں امریکا اور یورپ کا اسلحہ خوب فروخت ہورہاہے۔ سعودی عرب بھی اپنے تیل کی دولت اسلحہ کی خرید پر لٹاکر مسلمانوں کے دشمنوں کو فائدہ پہنچارہاہے۔ شام کی بد ترین صورتحال سامنے ہے جہاں امریکا اور روس شامیوں کو تباہ کرنے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کررہے ہیں۔ نام نہاد عرب اتحاد بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ یمن سے جنگ میں مسلمان مسلمان کو ہلاک کررہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ سمیت پورا یورپ میدان جنگ بنا اور فتح و شکست سے قطع نظر یورپ کو زمینی نقصان پہنچا۔ چنانچہ اہل یورپ و امریکا نے طے کرلیا تھا کہ آئندہ جنگیں یورپ کی سرزمین سے باہر لڑی جائیں گی تاکہ ان کے علاقے تباہی سے محفوظ رہیں۔ 1979ء میں جب سوویت یونین نے اندرونی غداروں کی مدد سے افغانستان کو روندا تو امریکا فوری طور پر مقابلے میں نہیں آیا۔ تاہم جب مجاہدین نے بے وسیلہ ہوتے ہوئے بھی سوویت فوجیوں کے دانت کھٹے کردیے تب امریکا کو بھی حوصلہ ہوا مگر اس نے صرف اسلحہ فراہم کیا، فوج اتارنے کی ہمت نہیں کی۔ اب یہی امریکا خود افغانستان پر حملہ آور ہوگیا حالانکہ 11 ستمبر 2001ء میں نیو یارک کے تجارتی مرکز کی تباہی سے افغانوں کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس وقت افغانستان پر طالبان کی جائز حکومت تھی جسے پاکستان سمیت تین دیگر ممالک نے بھی تسلیم کر رکھاتھا۔ طالبان کے سفیر ملا ضعیف اسلام آباد میں اپنی حکومت کی نمائندگی کررہے تھے۔ لیکن بزدل حکمرانوں نے امریکا کے خوف سے اپنے افغان بھائیوں کے قتل عام میں امریکا سے تعاون کیا اور تمام سفارتی آداب کو پامال کرتے ہوئے طالبان کے سفیر کو امریکا کے حوالے کردیا۔ ایک ملا ضعیف ہی کیا، جنرل پرویز نے تو عافیہ صدیقی سمیت کئی افراد کو امریکا کے ہاتھ بیچ دیا اور پیسے کمائے۔ اس کا اعتراف انہوں نے اپنے نام سے شائع ہونے والی کتاب میں بھی کیا۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ایک آمر کے خوف سے دم سادھے بیٹھی رہیں البتہ جماعت اسلامی اس وقت بھی آواز بلند کرتی رہی۔ اس وقت کی مسلم لیگیں کہیں جاچھپی تھیں۔ پرویز مشرف نے قائد اعظم مسلم لیگ کے نام سے ایک سرکاری لیگ بنالی اور اس کی لگام گجرات کے چودھریوں کے حوالے کردی۔ ق لیگ کے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی تو بھٹو سے بھی آگے بڑھ گئے جنہوں نے ایک آمر اور پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان کو اپنا باپ بنالیا تھا اور ڈیڈی کہتے تھے۔ پرویز الٰہی ایک آمر کی خوشامد میں یہ تک کہتے رہے کہ ہم جنرل پرویز کو وردی سمیت 10 مرتبہ صدر بنائیں گے۔ آج حق گوئی کا نقارہ بجانے والے شیخ رشید جنرل پرویز کے ترجمان اور وزیر اطلاعات تھے۔ ان کی بنیادی ذمے داری یہ تھی کہ عوام کو امریکا سے ڈرایا جائے کہ امریکا پاکستان کو ’’تورا بورا‘‘ بنادے گا، مخالفت کرنے والے سب گوانتا ناموبے جیل میں ہوں گے۔ شیخ صاحب حق نمک ادا کررہے تھے۔ جہاں تک افغانستان میں امن کی بات ہے تو پاکستان کا امن بھی افغانستان سے وابستہ ہے لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ افغانستان میں جو بھی تخریب کاری ہوتی ہے، کابل انتظامیہ پاکستان پر اس کا الزام دھر دیتی ہے۔ پاکستان ثبوت لیے بیٹھا رہتا ہے کہ افغانستان کی طرف سے پاکستان میں کتنی کارروا ئیاں ہوئیں۔ گزشتہ دنوں افغان صدر اشرف غنی کے مصالحانہ رویے اور لہجے سے آس بندھی تھی کہ دونوں ممالک مل کر تخریب کاروں کا قلع قمع کریں گے لیکن کیا امریکا کو یہ بات پسند آئے گی جو افغانستان پر قبضے کا طویل منصوبہ بنائے بیٹھا ہے۔ خواجہ آصف نے کہاہے کہ پاکستان صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا۔ یہی ہونا بھی چاہیے کہ ہر ملک اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ پاکستان تو اب تک امریکی مفادات کا تحفظ کرتا رہا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ کا کہناتھا کہ نائن الیون کے بعد کی غلطی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، مرواتا کوئی ہے، آلہ قتل ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اب امریکی پراکسی وار کا حصہ نہیں بنیں گے۔ فلسطین، کشمیر، شام، میانمر اور جہاں کہیں بھی مسلمان مارے جارہے ہیں اس کی واحد وجہ علامہ اقبالؒ نے یہ بتادی تھی کہ ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘ ۔اور ضعیفی کا یہ جرم پوری امت مسلمہ میں سرائیت کرچکا ہے چنانچہ ہر جگہ مرگ مفاجات کا سامنا ہے۔ افغانستان کے پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران اگر امریکا کے خلاف جم کر کھڑے ہوجاتے تو امریکا زیادہ دیر نہ ٹکتا۔ لیکن کیا مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کے ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف امت مسلمہ متحد ہے؟ مرگ مفاجات کے شکار صرف کوسنے دے سکتے ہیں، بد دعائیں کرسکتے ہیں، میدان میں نکلنے سے خوف زدہ ہیں، موت کا خوف جو آکر رہے گی۔ کیا افغان مجاہدین اور فلسطینی مجاہدین کی مثالیں کافی نہیں ہیں۔ امریکا کو برا بھلا کہنے سے بہتر ہے کہ اپنی صفیں مضبوط کی جائیں۔ کیا ایسا ہوسکے گا۔؟