سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی (3

902

قوموں کی زندگی میں کبھی ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ وہ مفتوح ہوجاتی ہیں اور ان کے لیے مزاحمت ممکن نہیں رہتی۔ لیکن مزاحمت سے قاصر ہونے اور مزاحمت سے ہمیشہ کے لیے دستبردار ہوجانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد اگر سرسید یہ کہتے کہ ہم نے مزاحمت کرکے دیکھ لی مگر مزاحمت کامیاب نہیں ہوسکی۔ چناں چہ برصغیر کے لوگوں باالخصوص مسلمانوں کو سرِدست مزاحمت کا خیال ترک کرکے اپنی تعلیمی، معاشی حالت کو بہتر بنانے پر توجہ کرنی چاہیے اور مزاحمت کو کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھنا چاہیے تو یہ کچھ نہ کچھ معقول بات ہوتی۔ مگر سرسید نے مسلمانوں کی وقتی عسکری شکست کو دائمی عسکری شکست میں تبدیل کردیا۔ بلکہ انہوں نے مزید غضب یہ کیا کہ مسلمانوں کی عسکری شکست کو تہذیبی شکست میں تبدیل کردیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے انگریزوں کی غلامی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت قرار دے ڈالا۔ ظاہر ہے کہ اگر غلامی اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت ہے تو کس کافر کے دل میں غلامی سے نجات کی خواہش پیدا ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سرسید نے مسلمانوں کے لیے غلامی کو دائمی بنادیا۔ یہ ایسی بات ہے کہ اسلام کیا کفر کے بھی ’’شرف‘‘ کے خلاف ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ کافروں اور مشرکوں نے بھی غلامی سے نجات کے لیے جدوجہد کی ہے۔ ویت نام کمیونسٹ ملک تھا اور کمیونسٹ نہ خدا کا قائل تھا نہ مذہب کا لیکن امریکا نے ویت نام پر قبضہ کیا تو ویت نامیوں نے امریکا کے خلاف بے مثال جدوجہد کی اور امریکا کو ویت نام سے نکلنے پر نہیں بھاگنے پر مجبور کردیا۔ ژاں پال سارتر جدید مغربی تہذیب کا صورت گر ہے مگر اس کے ملک فرانس نے الجزائر پر قبضہ کیا تو سارتر نے اس قبضے کو غلط قرار دیا اور الجزائر سے فرانس کی واپسی کے لیے زبردست ملک گیر مہم چلائی۔ یہ مہم اتنی موثر تھی کہ اُسے بغاوت سے تعبیر کیا گیا اور لوگوں نے فرانس کے صدر ڈیگال کو مشورہ دیا کہ سارتر کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا جائے لیکن ڈیگال نے اس مشورے پر یہ تاریخی فقرہ کہا۔ سارتر روحِ فرانس ہے اسے کس طرح گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ سارتر کی مہم کے نتیجے میں بالآخر فرانس کو الجزائر چھوڑنا پڑا۔ سارتر لامذہب انسان تھا مگر غلامی کے سلسلے میں اس کا موقف ’’صاحب ایمان‘‘ سرسید احمد خان سے کروڑوں گنا بہتر تھا۔ چوں کہ مرزا غلام احمد قادیانی سرسید کے پیدا کردہ اور ان کے ’’فکر شریک بھائی‘‘ تھے اس لیے انہوں نے بھی انگریزوں کی غلامی پر دھمال ڈالا۔ یہاں تک کہ انہوں نے انگریزی اقتدار کی علامت ملکہ وکٹوریہ کو ساتویں آسمان کے پار پہنچادیا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی نے اس ضمن میں مزید کیا فرمایا ہے۔ سرسید نے ایک جگہ لکھا۔
’’سب لوگ اس پرامن اور آزاد گورنمنٹ کے عہد میں‘ جو ملکہ معظمہ وکٹوریا دام ملکہا کے سایہ عاطفت سے ہندوستان میں ہے‘ اپنی قومی ترقی میں نہایت طمانیت سے کوشش کریں اور ملکہ معظمہ کی جان کو دعا دیا کریں‘‘۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے ایک مقام پر تحریر کیا۔
’’یا الٰہی! اس مبارکہ قیصرۂ ہند دام ملکہا کو دیرگاہ تک ہمارے سروں پر سلامت رکھ اور اس کے ہر قدم کے ساتھ اپنی مدد کا سایہ شامل حال فرما اور اس کے اقبال کے دن بہت لمبے کر‘‘۔
(نقش سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ200)
سرسید کا کہنا ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کے سایہ عاطفت میں کام کرنے والی حکومت ’’پرامن‘‘ ہے، حالاں کہ 1857ء کی جنگ آزادی کے بارے میں بعض مورخوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اس کے دوران ایک کروڑ لوگ جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ دارالحکومت دہلی میں انگریزوں نے ایسا قتل عام کیا کہ دہلی کی کوئی گلی ایسی نہ تھی جو حریت پسندوں یا مظلوم عوام کے خون سے رنگین نہ ہوئی ہو۔ ’’پرامن‘‘ انگریز حکومت نے مجاہدین آزادی کو گولیوں سے شہید کرنا کافی نہ سمجھا بلکہ اس نے ’’پرامن توپوں‘‘ کے ’’پرامن گولوں‘‘ سے مجاہدین کے چیتھڑے اُڑائے۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری تھا تا کہ ’’پرامن خوف‘‘ پیدا ہو۔ چوں کہ انگریز ہر کام ’’پرامن‘‘ کررہے تھے اس لیے سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی دونوں نے انگریزوں اور ملکہ معظمہ کے لیے ’’دعا‘‘ کرنا ضروری خیال کیا۔ اس سلسلے میں سرسید نے مزید لکھا۔
’’ہمارا مذہبی فرض ہے کہ ہم حضرت ملکہ معظمہ قیصرۂ ہند کی اطاعت دل و جان سے کریں اور اُن کی دولت اور حکومت کی درازی اور قیام و استحکام کی دعا کرتے رہیں اور اس بات کے اظہار کے لیے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے مذہب کے احکام کے سچے پیرو ہیں اور اپنے عادل اور فرض رساں حاکم کی نہایت وفاداری اور خیر خواہی سے اطاعت کرتے ہیں‘ حضرت ملکہ معظمہ کی شصت سالہ حکومت کی ایک یادگار قائم کرنی چاہیے۔
ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ۔۔۔ گورنمنٹ انگلشیہ کے سایہ عاطفت میں اپنی زندگی نہایت وفاداری سے بسر کریں اور ملکہ معظمہ وکٹوریا قیصرۂ انڈیا کی سلامتی اور درازی سلطنت کی دعا کرتے رہیں جس کی بے نظیر سلطنت کے ساٹھویں سال جلوس کا عنقریب جشن ہونے والا ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے سرسید کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے کہا۔
ہم پروا جب ہے کہ ہم سچے دل سے، نہ نفاق سے، اس گورنمنٹ کے شکر گزار ہوں اور جناب قیصرہ ہند دام ظلہا کی عمر و اقبال و دولت اور اس خاندان کے دوام اور بقا کے لیے تہ دل سے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ نے اس شکر اور ان دعاؤں کے لیے جشن جوبلی کا ہمیں ایک موقع دیا ہے اور یہ دن حقیقت میں ایک عظیم الشان خوشی کا موجب ہے کیوں کہ خدا تعالیٰ نے ہماری ملکہ معظمہ قیصرہ ہند دام ظلہا کے شصت سالہ زمانہ تخت نشینی کو امن اور عافیت اور ترقی اقبال کے ساتھ پورا کیا۔
اُس خدا کا شکر ہے جس نے آج ہمیں یہ عظیم الشان خوشی کا دن دکھلایا کہ ہم نے اپنی ملکہ معظمہ قیصرہ ہند و انگلستان کی شصت سالہ جوبلی کو دیکھا۔ جس قدر اس دن کے آنے سے مسرت ہوئی، کون اس کا اندازہ کرسکتا ہے؟ ہماری محسنہ قیصرہ مبارکہ کو ہماری طرف سے خوشی اور شکر سے بھری ہوئی مبارکباد پہنچے۔ خدا ملکہ معظمہ کو ہمیشہ خوشی سے رکھے۔
(نقش سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ201)
سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی کو انگریز حکومت اتنی عزیز ہے کہ وہ اپنے مذہب، اپنی تہذیب، اپنی تاریخ، اپنی قوم اور اپنی اجتماعی تقدیر سے غداری کرسکتے تھے مگر وہ انگریزوں سے غداری کا خیال بھی دل میں لانا ’’کفر‘‘ سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے غلامی کو مذہبی رنگ دینے سے بھی گریز نہ کیا۔ مذکورہ بالا اقتباسات سے ظاہر ہے کہ انگریزوں کو برصغیر پر قابض ہوئے 60 سال ہوگئے ہیں مگر سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی کی طبیعت غلامی سے ’’سیر‘‘ نہیں ہوئی۔ اور انہیں اتنی طویل مدت میں بھی غلامی کا خوفناک چہرہ خوفناک نظر آنا شروع نہیں ہوا۔ اس کے برعکس سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی کو ’’خوشی‘‘ ہے کہ انہیں انگریزوں کے تسلط کی 60 ویں سالگرہ دیکھنے کی ’’سعادت‘‘ نصیب ہوئی۔ مولانا مودودیؒ نے کہیں فرمایا ہے کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہے۔ اس قول سے استفادہ کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ بدترین آزادی بھی بہترین غلامی سے بہتر ہے۔ اتفاق سے انگریزوں کی غلامی تو بہترین تھی بھی نہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ انگریز صرف اپنے غلاموں کو سیاسی غلام بنائے ہوئے نہیں تھے بلکہ وہ ان کی سیاسی غلامی کو تہذیبی غلامی میں تبدیل کررہے تھے۔ وہ ان کے مذہب، ان کی تاریخ ان کی انفرادی خودی اور ان کی اجتماعی خودی کے خلاف سازشیں کررہے تھے۔ کسی کو بہترین غلامی دیکھنی ہو تو مسلمانوں کے غلبے کے تحت زندگی بسر کرنے والی قوموں کی تاریخ کو دیکھنا چاہیے۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی مگر آج بھی برصغیر میں اکثریت ہندوؤں کی ہے۔ مسلمانوں نے نہ ہندوؤں کے مذہب کو چھیڑا، نہ ان کی تہذیب پر ہاتھ ڈالا، نہ ان کے کلچر کو چھیڑا، نہ ان کے علوم و فنون کو ختم کرنے کی سازش کی، نہ ان سے ان کی زبان چھینی۔ مسلمان انگریزوں کی طاقت اور سازش کا ایک فی صد بھی بروئے کار لائے ہوتے تو آج ہندوستان میں ایک بھی ہندو نہ ہوتا، پورا ہندوستان مسلمان ہوتا۔
مگر انگریز صرف دو سو سال میں پورے برصغیر کو ’’مغربی‘‘ بنا گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے مسلمانوں کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی کی صورت میں ایک جھوٹا نبی بھی ’’ایجاد‘‘ کر ڈالا۔ اس سلسلے میں سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی کی ’’جرأت کے لیے دونوں کی تحاریر سے ایک ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔ سرسید نے لکھا۔
’’نوشیرواں جو ایک آتش پرست بادشاہ تھا مگر عادل، اُس کے عہد میں ہونے سے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی خوشی و خوشنودی ظاہر فرمائی ہے۔۔۔ پس ہم رعایائے ہندوستان جو ملکہ معظمہ وکٹوریہ دام سلطنتہا ملکہ ہندو انگلینڈ کی رعیت ہیں اور جو ہم پر عدل و انصاف، بغیر قومی یا مذہبی طرفداری کے حکومت کرتی ہے، سر تا پا احسان مند ہیں اور ہم پر ہمارے پاک اور روشن مذہب کی تعلیم سے ہم کو اس احسان مندی کا ماننا اور اس کا شکر بجا لانا واجب ہے‘‘۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے سرسید کی ہمنوائی کی اور تحریر کیا۔
’’قیصرۂ ہند اور اُس کے زمانہ سے فخر کرتا ہے جیسا کہ سید الکونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے نوشیرواں عادل کے زمانہ سے فخر کیا تھا۔ سو۔۔۔ جلسہ جوبلی کی مبارک تقریب پر ہر ایک شخص پر واجب ہے کہ ملکہ معظمہ کے احسانات کو یاد کرکے مخلصانہ دعاؤں کے ساتھ مبارک باد دے اور حضور قیصرۂ ہندو انگلستان میں شکر گزاری کا ہدیہ گزرائے‘‘۔
سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی نے ان اقتباسات میں جو کچھ کہا ہے وہ توہین رسالت بھی ہے اور دروغ گوئی کی بدترین مثال بھی۔ معاذ اللہ رسول اکرمؐ نوشیرواں کے غلام نہیں تھے۔ پھر کسی کے عدل کی تعریف ایک الگ بات اور چیز ہے اور اس کی غلامی میں ہو کر اس کے عدل کی تعریف کرنا اور شے ہے۔ مگر سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی نے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے انگریزوں کی غلامی کو نوشیرواں کے عدل کا ہم معنی قرار دے دیا ہے۔ اتفاق سے انگریز عادل بھی نہ تھے، ہوتے تو سرسید کا سر قلم کردیتے۔ اس لیے کہ انصاف یہ ہے کہ ظلم کو رحمت اور غلامی کو برکت کہنے والا ظالم ہے۔ چنگیز خان کے بارے میں آیا ہے کہ وہ حریفوں اور شہروں کو فتح کرنے کے لیے پہلے شہر کے ’’عمائدین‘‘ کو اپنا حامی بنا لیتا تھا پھر جب وہ شہر فتح کرتا تھا تو عمائدین شہر کا سر سب سے پہلے قلم کرواتا تھا اور کہتا تھا کہ جو لوگ اپنی قوم کے وفادار ثابت نہ ہوئے وہ میرے وفادار کیا ہوں گے۔ مگر انگریز تو سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی جیسے غداروں کے سرپرست تھے۔ وہ کسی کو ’’سر‘‘ اور کسی کو ’’نبی‘‘ بنادیتے تھے۔