چیئرمین سینیٹ: رضا ربانی پر اتفاق نہ کیا تو پی پی کونقصان ہوسکتا ہے

286

کراچی (تجزیہ: محمد انور) سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے لیے آج ( بروز پیر ) ایوان بالا میں 204 سینیٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے جس کے بعد شام7 بجے تک منتخب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا اعلان کردیا جائے گا۔ لیکن ان انتخابات سے 24 گھنٹے قبل نااہل و سابق وزیر اعظم نواز شریف کو جوتا مارنے اور عمران خان پر جوتا مارنے کی کوشش کے جو افسوسناک واقعات پیش آئے اور ہفتے کو خواجہ آصف پر سیاہی پھینکنے کا جو واقعہ ہوا وہ جمہوری اداروں سے عوام کی ناراضی کا واضح اشارہ سمجھا جارہا ہے اور سمجھا جانا چاہیے ۔ یہ واقعات سیاسی جماعتوں کے لیے عوام کی طرف سے ایک تنبیہ سے کم نہیں ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات اور اس کے بعد چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے چناؤ کے واسطے جس طرح کی ہارس ٹریڈنگ ہوئی اور جس طرح کے داؤ لگائے جارہے ہیں۔ وہ بھی کم نہیں ہیں۔ عوام پوچھنا چاہ رہے ہیں کہ سینیٹ ، قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین ان ایوانوں میں پہنچ کر ملک اور قوم کے لیے کیا کرتے ہیں؟ آخر کیوں یہ لوگ ان انتخابات پر قوم کا پیسہ اور وقت ضائع کرتے ہیں ؟ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف زرداری کی انا کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے متفقہ طور چیئرمین کے لیے موجودہ چیئرمین رضا ربانی جو ان ہی کی پارٹی کے سینئر رہنما ہیں کے نام کو مسترد کرکے معاملے کو طول دیا ہے اور اسی وجہ سے اتوار کی شام تک نئے چیئرمین کے لیے کسی کی نامزدگی واضح نہیں ہے تاہم یہ بات حتمی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ اگر آصف زرداری رضا ربانی کو چیئرمین نامزد نہیں کیا تو پیپلز پارٹی نہ صرف اپنے ہی چیئرمین کو کامیاب کرانے کے لیے خود ہی رکاوٹ بن کر جمہوری عمل کی مخالفت کی ہے بلکہ رضا ربانی کی غیر مشروط طور پر حمایت کرنے والی مسلم لیگ ن ، جماعت اسلامی، جے یو آئی ایف اور دیگر جماعتوں کی بے لوث و پرخلوص پیش کش کو ٹھکراکر اپنے لیے مستقبل میں مسائل پیدا کرلیے ہیں۔ ایسی صورت میں آصف زرداری کی سیاست میں ناکامی اور پیپلز پارٹی میں مرکزی سطح پر اختلافات بھی پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔ جس کے ذمے دار آصف زرداری ہونگے۔ تاہم بعض واقف حال لوگوں کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ عین وقت پر آصف زرداری چیئرمین بلاول زرداری اور دیگر رہنماؤں کے دباؤ پر رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ کے لیے نامزد کرنے پر تیار ہوجائیں ایسی صورت میں آئندہ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی ہوجائیں گے اور ڈپٹی چیئرمین مسلم لیگ نواز کا ہوسکتا ہے۔ لیکن اس فیصلے کے لیے آصف زرداری کو اپنی انا کی قربانی دینی پڑے گی بصورت دیگر مسلم لیگ اپنا یا اپنی حمایتی پارٹی کے سینیٹرز کو چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے لیے نامزد کردے گی۔مسلم لیگ کے رہنما اور پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں 54 سینیٹرز کی حمایت حاصل ہے۔ مسلم لیگ کے اپنے 33 سینیٹرز ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کے سینیٹرز کی کل تعداد 20 ہے۔ خیال ہے کہ ایم کیو ایم ، مسلم لیگ فنکشنل جے یو آئی فضل اور فاٹا و بلوچستان کے آزاد سینیٹرز بھی مسلم لیگ نواز کے حمایتی چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے امیدوار کو ہی ووٹ دیں گے۔