۔2018کا الیکشن یا سلیکشن

394

جیسے جیسے نواز شریف کے خلاف فیصلے آتے جا رہیں ویسے ویسے ان کی تقاریر میں تلخیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ ان کے بیانیے میں شدت اور غصہ ان کے اپنے لکھے ہوئے اسکرپٹ کے مطابق ہے یا کسی اور کے، یہ فی الحال ابھی راز ہے کہ ان کے جلسوں میں روز بروز حاضری بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عوام کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ نواز شریف اور ان کی فیملی نے کتنی کرپشن کی ہے اور یہ کہ کتنا پیسہ ملک سے باہر بھیجا بلکہ وہ تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ انصاف کے ایوانوں میں نواز شریف کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے۔ ہمارے یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ لوگ زبانی بہت باتیں بگھارتے ہیں کہ اس ملک کو کرپشن نے کھوکھلا کردیا لیکن جب ووٹ دے کر اپنے نمائندے چننے کا وقت آتا ہے تو ان ہی پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں جن کی کرپشن کے چرچے پوری دنیا میں ہورہے ہو تے ہیں۔ 8مارچ کے اخبارات میں ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کے حوالے سے یہ خبرشائع ہوئی ہے کہ شریف فیملی نے پچھلے پانچ برسوں میں تین سو ارب روپے کی کرپشن کی ہے۔
2018 الیکشن کا سال ہے جو قوتیں ن لیگ کو توڑنا چاہتی تھیں وہ شاید اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکیں بلکہ ن لیگ کے جلسوں میں روز بروز بڑھتی ہوئی حاضری نے ان قوتوں کے اوسان خطا کردیے ہیں اسی ماہ کے اندر نواز شریف کے مقدمات کے فیصلے آنے تھے ابھی اس میں اور وقت لگتا نظر آرہا ہے سینیٹ کے الیکشن سے پہلے یہ اندیشے لاحق تھے معلوم نہیں سینیٹ کے انتخابات ہو بھی سکیں گے یا نہیں اس لیے کہ ن لیگ کی یہ کوشش تھی بلکہ اب بھی ہے کہ آنے والے انتخابات میں وہ قومی اسمبلی میں اتنی واضح اکثریت حاصل کر لے کہ وہ اپنے تحادیوں کو ساتھ ملا کر دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کر سکے۔ پھر یہی ترمیم ایوان بالا یعنی سینیٹ میں بھی منظوری کے لیے جائے گی اس لیے ن لیگ کی یہ خواہش تھی کہ سینیٹ میں بھی اس کو اتنی نشستیں مل جائیں کہ اپنی مرضی کی قانون سازی میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ ابھی تو اپنا چیرمین منتخب کرانے کا مرحلہ ہے 33نشستیں تو ن لیگ کی ہیں اور اپنا چیرمین لانے کے لیے مزید 20سینیٹروں کی حمایت درکار ہے۔ ویسے تو آمرانہ ذہن رکھنے والے سیاست دانوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اسمبلی میں اتنی اکثریت حاصل کرلیں کہ انہیں آئین میں اپنی مرضی کی ترمیم کے لیے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
1977 کے انتخابات میں پی پی پی کی پوزیشن اتنی مضبوط تھی کہ وہ آسانی سے انتخاب جیت سکتی تھی لیکن بھٹو صاحب کی دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی خواہش نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کا پروگرام بنایا کہ اپنے ہر امیدوار کو کھلی آزادی دی کہ وہ کسی طرح بھی یہ انتخابات جیت کر دکھائیں اور پھر یہ انتخابات ہی ان کے زوال کا سبب بن گئے۔ جنرل ضیاء نے برسراقتدار آنے کے فوری بعد فوج کی نگرانی میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا، کیوں کہ بھٹو صاحب کے آخری دنوں میں پاکستان قومی اتحاد سے جو مذاکرات چل رہے تھے اس میں قومی اتحاد کے رہنما کسی طرح یہ یقین دہانی حاصل کرنا چاہتے تھے کہ بھٹو صاحب بھلے وزیراعظم رہیں لیکن دوبارہ انتخابات فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں بھٹو اس پر تیار نہ تھے وہ اپنی سول ایڈمنسٹریشن کی نگرانی ہی میں دوسرا انتخاب کرانے پر مصر تھے۔ پی این اے میں بعض سخت موقف رکھنے والے رہنماؤں کا تو یہ اصرار تھا بھٹو صاحب سے استعفا لیا جائے پھر انتخاب ہو، جب کہ اتحاد کے معتدل مزاج رہنماؤں کا خیال تھا کہ بھٹو صاحب کے برسراقتدار رہتے ہوئے یہ انتخاب ہوں گے تو اتحاد کے جیتنے کے مواقع زیادہ روشن ہوں گے اگر ان کو اقتدار سے ہٹایا تو یہ ہیرو بن جائیں گے وہی ہوا کہ جب جنرل ضیاء نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے 90 روز بعد دوبارہ انتخاب کا اعلان کیا جہاں قومی اتحاد کے انتخابی جلسے ہو رہے تھے اس سے زیادہ بھرپور حاضری والے جلسے پی پی پی کے ہورہے تھے ادھر قومی اتحاد کے کارکنان بھی پریشان ہوگئے کہ پی پی پی تو پہلے سے زیادہ مضبوط نظر آرہی تو دوسر ی طرف جنرل ضیاء اور ان کی ٹیم کے اعصاب بھی ہل کر رہ گئے۔ چناں چہ ہماری ہی طرف سے بعض سیاست دانوں کا یہ مطالبہ سامنے آیا کہ پہلے احتساب پھر انتخاب اور اس مطالبے میں شدت آتی گئی، پھر یہ انتخابات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیے گئے، احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کی ایف آئی آر پر بھٹو صاحب کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔
سینیٹ میں ن لیگ اکثریت حاصل کر چکی ہے نواز شریف صاحب کے بڑے بڑے جلسے اور شرکاء کا جوش خروش یہ بتا رہا ہے کہ اگلا الیکشن ن لیگ آسانی سے جیت لے گی بعض قوتوں کے اعصاب بھی کمزور ہوتے نظر آرہے ہیں کہ اگر ن لیگ واضح اکثریت سے جیت گئی اور دو تہائی اکثریت حاصل کرلی تو پھر انتقامی سیاست کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اس مرحلے دو امکانات سامنے ہوتے نظر آتے ہیں کہ اس سال ہونے والے انتخابات اس طرح کرائے جائیں کہ کسی پارٹی کو واضح اکثریت نہ ملے معلق پارلیمنٹ ہو اور اقتدار کا توازن Balance of power چھوٹی سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں آجائے جن کو کنٹرول کرنا یا جن سے ڈیل کرنا آسان ہوتا ہے پھر برسر اقتدار گروپ زیادہ پر پرزے نہیں نکال سکے گا سارے ادارے اپنی اپنی جگہ پر اپنا کام جاری رکھیں گے۔
دوسرا امکان یہ ہے کہ 1977 کی طرح ایک بار پھر پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ بلند کیا جائے اور جو عبوری سیٹ اپ بنایا جائے اس میں کچھ ٹیکنوکریٹس کو شامل کرکے اس کی مدت تین ماہ سے بڑھا کر تین سال کردی جائے اور یہ کہا جائے کہ ملک سے کرپشن کی گندگی کو صاف کرکے اور ملک کی دولت لوٹنے والے لوگوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچا کر ایسے انتخابات کرائے جائیں جن میں صاف ستھرے کردار کے دیانت دار لوگ کامیاب ہو کر آئیں، اب دیکھیے آگے کیا ہوتا ہے۔