پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جسے ہم نے اللہ سے وعدے کی بنا پر حاصل کیا، لیکن وقت اور حالات کے تحت یہ باتیں ہمارے ذہنوں سے فراموش کردی گئیں اور ہم اس کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے اور ہم خود کو اس کا حقیقی وارث سمجھ بیٹھے۔ تاریخ گواہ ہے جن قوموں نے بے وفائی کی وہ نشان عبرت بن گئیں اور آنے والی نسلوں نے برے انجام سے یاد رکھا اور یہ خوش بختی ان کے لیے بدبختی کی علامت بن گئی، اگر ہم حالیہ حالات کے تحت اپنے ملک کے ان واقعات کا ذکر کریں جنہوں نے تمام ہوش مندوں کے ہوش اڑا دیے ہیں تو یہ بے جا نہ ہوگا۔ کرپشن معاشرے کا ناسور ہے جو دولت کو چند خاندانوں تک محدود کردیتا ہے اور وہ اس کے مالک بن بیٹھتے ہیں اور اپنی دولت اور منصب کو بچانے کے لیے ہر غلط ذرائع کو استعمال کرتے ہیں اس کے نتیجے میں ملک زوال پزیر ہوجاتا ہے اور لوگ عدم برداشت کا شکار ہو کر وہ کام کر بیٹھتے ہیں جو انہیں انسانیت کے مقام سے حیوانیت کے منصب پر لے آتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے تقریباً سارے ہی حکمران اس معاشی اخلاقی کرپشن کا شکار ہیں اور وہ دولت اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کررہے ہیں جو انہیں باعزت قرار دے۔ ملک ظلم و زیادتی کا شکار ہے، لوگ انصاف کے لیے مایوس ہو چکے ہیں، غریب انسان تو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ کوئی انہیں انصاف بھی فراہم کرسکتا ہے، یہ تو امیروں کا نصیب ہے جس کی وجہ سے ملک میں انارکی پھیلی ہوئی ہے، لوگ مایوس اور عدم برداشت کی وجہ سے بدکردار ہوچکے ہیں جس ملک کے نوجوان اور ادھیڑ عمر کے لوگ بچوں پر رحم نہ کریں، خدا ان پر رحم نہیں کرتا، حالیہ دنوں میں جو واقعات رونما ہورہے ہیں کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی اس کی اصل وجہ انصاف کا نہ ملنا ہے جو ظلم اور زیادتی کو پروان چڑھاتا ہے۔ لوگ کب تک جنگل کے قانون کے تحت زندگی گزاریں گے، یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم اسلام کو صرف مسجد تک محدود رکھنا چاہتے ہیں، باقی زندگی میں آزاد ہیں۔ چہرے بدلنے سے تبدیلی نہیں آتی، ہمیں نظام کی تبدیلی پر توجہ دینی چاہیے، جہاں ظالم کی گردن پر مظلوم کا ہاتھ ہو، ظالم کو فوری سزا دی جائے، اس کا بااثر ہونا کوئی معنی نہ رکھے۔ جہاں انصاف کا حصول مشکل ہوجائے وہاں ظلم کا بڑھنا، پھلنا پھولنا آسان ہوجاتا ہے، خدا ہمیں ہر ظالم کا ہاتھ پکڑنے والا بنادے (آمین)۔
عصمت احسان، ناظم آباد نمبر1