ہم قانون ساز اداروں (اسمبلیوں و سینیٹ) کے اراکین کو ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز دینے کے اصولی طور پر مخالف ہیں کیوں کہ ہمارے مشاہدے میں آیا ہے کہ جو ترقیاتی فنڈز انتخابی حلقوں کے ترقیاتی کاموں کے لیے جاری کیے جاتے ہیں ان میں خیانت کی جاتی ہے، کروڑوں روپے ملنے کے باوجود علاقوں کے مسائل جوں کے توں نظر آتے ہیں، عام اراکین کو چھوڑیے سابق وزیراعظم جو عدالت عظمیٰ کی طرف سے نااہل کیے گئے ہیں اُن کے حلقے این اے 120 پر ضمنی الیکشن کے دوران ٹی وی چینلوں نے وہاں کی جو منظر کشی کی وہ انتہائی پریشان کن تھی، علاقے کے بیشتر ووٹرز فراہمی و نکاسی آب کے عمومی مسائل کے علاوہ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر شاکی تھے، جس کا احساس مریم نواز کو انتخابی مہم کے دوران ضرور ہوا ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ اب انہوں نے وہاں کے مسائل پر توجہ دینا شروع کی ہے۔ یہی حال دوسرے حلقوں کا بھی تھا جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فراہم کردہ رقوم کہاں جاتی ہیں، سندھ و بلوچستان کی صورت حال کچھ مختلف نہیں جس کی نشاندہی میڈیا پر کی جارہی ہے۔ آج جو سفید پوش اور بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کرتے نظر آتے ہیں اُن کے ماضی کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کیا گل کھلائے ہیں، جسے دیکھو پارسا بنا ہوا ہے۔ ہمارا نظام احتساب کمزور اور اصلاح طلب ہے۔ کرپشن سے پاک معاشرے کی تشکیل کے لیے نیب نے آگہی مہم شروع کی لیکن مشکل یہ ہے کہ نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن جیسے اداروں میں کرپٹ عناصر موجود ہیں، جب تک ادارے کالی بھیڑوں سے پاک نہیں ہوتے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں بن سکتا۔ عدالتوں کے ججوں پر بھی کرپشن کا عنصر پایا جاتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ کون سا محکمہ بدعنوانی و بدنظمی سے پاک ہے؟ عدالتی نظام کا یہ حال ہے کہ حال ہی میں 100 سالہ مقدمے کا فیصلہ ہوا ہے اور وہ بھی سپریم کورٹ کی سطح پر، یہ نظام انصاف کی تصویر پیش کررہا ہے، عدالتوں میں مقدمات کے انبار لگے ہوئے ہیں مگر نہ مطلوبہ ججوں کی تعداد پوری کی جاتی ہے اور نہ مقدمے نمٹانے کا ٹائم فریم ہے۔ سالہا سال پیشیاں بھگت بھگت کر متاثرین کی جوتیاں گھس جاتی ہیں جس مقدمے کا فیصلہ مہینوں میں ہوجانا چاہیے وہ سالہا سال تک نہیں ہوپاتا۔ نچلی سطح پر بلدیاتی نظام موجود ہے اُسے فعال و متحرک کیا جائے، اُسے مطلوبہ وسائل فراہم کیے جائیں اور احتسابی نظام کو بہتر کیا جائے تا کہ عوامی مسائل بخوبی حل ہوسکیں اور جو رقوم جن مقاصد کے لیے فراہم کی گئی ہیں ان کا ایمانداری سے آڈٹ ہو تا کہ امانت میں خیانت کا بڑھتا ہوا رجحان ختم ہو۔
حبیب الرحمن، اقرا کمپلیکس گلستان جوہر، کراچی