کچھ توجہ اِدھر بھی

105

کہنے کو تو ایک اسلامی مملکت میں رہتے ہیں لیکن ہم کتنے اسلامی ہیں اس کا اندازہ ہم سب خود ہی لگا سکتے ہیں۔ ہماری عادت ہے کہ ہم دوسروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جب کہ اپنے آپ کو چھوڑ دیتے ہیں، ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی پر نظر ڈالی جائے تو نظر شرم سے جھک جاتی ہے، کیا ایسے ہوتے ہیں مسلمان؟ کیا ایسا ہوتا ہے اسلامی معاشرہ؟ کوئی شرم کوئی حیا کوئی لحاظ نہیں۔
جسے دیکھو مغرب کی اندھی تقلید کیے چلے جارہا ہے، کوئی روکنے، سمجھانے والا ہی نہیں ہے، نہ والدین کو اپنی ذمے داری کا احساس ہے کہ بچوں کی تربیت کی کتنی بھاری ذمے داری ہے۔ والد صاحب کو پیسے کمانے سے غرض ہے تو والدہ کو اپنے گھر کی سجاوٹ بناوٹ اپنے ظاہری حسن کی، بچوں کو اچھے اسکولوں میں ڈال کر اچھی ٹیوشن پڑھا کر سمجھتے ہیں ہم تو اپنی ذمے داری پوری کررہے ہیں جب کہ بچے کیا کررہے ہیں ان کو اس بات کا علم ہی نہیں، کن لوگوں کی وہ تقلید کررہے ہیں، کن کو اپنا آئیڈیل مان رہے ہیں، کیا ان سب باتوں کو چیک کرنے کی ضرورت نہیں؟ کیسی دوستیاں کررہے ہیں، کیسے ٹی وی پروگرام دیکھ رہے ہیں، ان سب پر نظر رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ موبائلز کا بے جا استعمال تو نہیں کررہے؟ انٹرنیٹ پر اتنا وقت کیوں صرف کرتے ہیں، سب پر والدین کی کڑی نگاہ رہنی چاہیے، آج کل ٹی وی اس قدر واہیات ہوچکے ہیں کہ تمام افراد بھی ساتھ دیکھتے ہوئے شرم محسوس کریں، کیا ایسا ہوتا ہے اسلامی معاشرہ؟ ٹی وی میں آگہی کے نام پر لڑکیوں کو ان کے مخصوص ایام میں استعمال ہونے والی اشیا کو ناچ ناچ کر بیان کیا جائے کہ اب ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں یا ان کا مقصد ان تمام لوگوں کو بھی متوجہ کرنا ہے جن کو اس کے بارے میں کچھ بھی پتا نہیں ہوتا اور وہ ان اشتہارات کو دیکھ کر ان باتوں کو پتا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے ایک طرح سے بے حیائی پھیلتی ہے، صبح کی نشریات میں ورزش کے نام پر یوگا کے ایسے ایسے انداز اور حرکات دکھا کر کیا کروانا مقصد ہے؟ پھر لڑکیوں سے موسیقی کے مقابلوں میں میزبانی اور لڑکوں کو جج کرنا اور اس پر ان لڑکیوں کا اتنا بے ہودہ لباس پہننا جسے عورتیں دیکھ کر شرما جائیں، وہ لباس مردوں کے سامنے پہن کر کمپیئرنگ کرنا یہ سب جدیدیت نہیں ہے بلکہ اخلاقی پستی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ زیادتی کے واقعات کیوں ہوتے ہیں، معصوم بچیوں کو ہوس کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے۔ یورپی معاشرے میں جتنی بے حیائی ہے اتنے ہی زیادہ اس قسم کے واقعات وہاں رونما ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے مذہب اور اس کی تعلیمات پر من و عن عمل پیرا ہونا چاہیے جس پر عمل کرکے ہم اپنے دین و دنیا دونوں کو سنوار سکتے ہیں۔
صبا عقیل، تیموریہ