آنے سے خیر، جانے سے بربادی

115

انسان کی زندگی میں گھریلو معاملات میں، خاندان میں، معاشرے میں، ہمارے کردار میں، ہمارے طرز زندگی میں، تہذیب و تمدن میں، رسم و رواج میں، کلچر میں، زبان، اخلاق میں، حیا خیر لاتی ہے، کیوں کہ حیا ایمان کی شاخ ہے جب حیا ہوگی تو ایمان خود بخود ٹھیک ہوگا جس کے اثرات ہمارے معاشرے میں نظر آئیں گے۔ مگر آج کل بے حیائی جن چور دروازوں سے داخل ہوئی ہے کہ بظاہر تو وہ حیا کا حصہ نظر آتی ہے مگر ہے نہیں۔ ہمارے خاندان، ماں باپ، بہن بھائی، میاں بیوی، بچوں اور بزرگوں، دوست احباب، شادی بیاہ کی تقریبات، بازاروں، کھیلوں، تعلیم، صحت، غرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں حیا باقی ہو اور ہم فخر سے کہہ سکیں کہ ہم حیا والے اور شرم والے ہیں۔ نیٹ اور میڈیا کی تیز رفتار زندگی نے انسان کی پوری شخصیت کو بدل ڈالا ہے، دنیا کی چکاچوند اور ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی دوڑ نے اپنے معاملات زندگی سے حیا کو نکال کر بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ ہوس اور خود نمائی میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ حیا کا چولا اُتارنے پر مجبور ہوگئے، دور جہالیت کی طرح ہر برائی معاشرے میں نظر آتی ہے۔ یہ نہ صرف ایمان کا خاتمہ کررہی ہے بلکہ پستی و بربادی کی اندھیر نگری کی طرف گامزن ہے۔
سب سے زیادہ حیا والے نبی پاکؐ تھے، انہوں نے کس طرح اپنے کردار سے ایک مکمل معاشرہ تشکیل دیا جو قیامت تک کے مسلمانوں کی پہچان ہے، حیا کی بدولت ہی دنیا میں بڑے بڑے کام سرانجام پائے، چاہے وہ انبیا کا مشن ہو یا دنیا کا نظام قائم کرنا ہو، سب کے سب حیا کے دائرے میں سرگرم عمل تھے، انسانیت کی جیتی جاگتی تصویر بن گئے، حرام حلال، جائز ناجائز، سچ جھوٹ، ہر چیز حیا کے دائرے میں تھی جو ایمان کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے۔ حیا عورتوں کے لیے ہی نہیں بلکہ مردوں کے لیے اہمیت کی حامل ہے، مرد و زن کی حیا سے مسلم معاشرہ تشکیل پاتا ہے جو بے حیائی کے چور دروازے پر ایک آہنی دیوار ثابت ہوتا ہے۔
شبانہ ضیا، رضویہ سوسائٹی، یوسی ون