آسائشات سے بھرپور یہ درس گاہیں

135

صغیر علی صدیقی، کراچی
مملکت خداداد پاکستان کے قومی خدمات کے متعدد شعبے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ صنعت کا درجہ حاصل کرچکے یا پھر صنعت کا درجہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں، ان شعبوں میں ہمارا شعبہ تعلیم سرفہرست ہے۔ ہمارے یہاں کوئی مانے یا نہ مانے تعلیم مکمل طور پر صنعت کا درجہ حاصل کرچکی ہے اور مملکت کے پُرآسائشات طبقات تعلیمی میدان میں آگے آگے ہیں اور ان کے بچے ہی آسائشات سے بھرپور اور مہنگی ترین درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرکے مغرب میں قائم بین الاقوامی تعلیمی اداروں میں جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے واپس آتے ہیں اور وہ مملکت کے ہر سرکاری و غیر سرکاری شعبے میں اپنے لیے جگہ بنالیتے ہیں۔ ہمارے یہاں شعبہ تعلیم میں دہرا معیار نافذ ہے غریب گھرانوں کے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم کے حصول کے لیے آتے ہیں اور ان تعلیمی اداروں میں ان طلبہ و طالبات کو نصابی کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی مصروف رکھا جاتا ہے۔ لہٰذا ان کا دل و دماغ صرف تعلیم کی جانب ہی مرکوز نہیں رہتا بلکہ بہت سے مسائل میں گھرا رہتا ہے۔ لہٰذا ان کا مکمل طور پر تعلیم کے اہداف حاصل کرنا اس لیے مشکل ہوتا ہے۔ پاکستان میں شعبہ تعلیم کو ابتدا ہی سے دہرے معیار کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے، مراعات یافتہ یعنی اَپر کلاس کے لیے ’’او لیول‘‘ اور درجہ دوم یعنی ’’بی‘‘ کلاس کے لیے ’’مقامی‘‘ لیول بنادیا گیا ہے۔ اَپر یعنی ’’او لیول‘‘ کے لیے بھرپور مراعات سے آراستہ مہنگی مہنگی فیسوں والی درس گاہیں قائم ہیں اور قائم ہورہی ہیں جو غریبوں کو اُن کی پہنچ اور سوچ تک سے دور رکھے ہوئے ہیں۔ مراعات یافتہ اور غیر مراعات یافتہ افراد کے درمیان طبقاتی تقسیم میں تعلیم کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ دہرا معیار تعلیم مستحکم ہوچکا ہے، بڑے بڑے سرمایہ دار جاگیردار، صنعت کار اور ملک میں تعلیمی اداروں کا جال بچھاتے جارہے ہیں اور اس کو کمائی کا ذریعہ بنارہے ہیں اور مہنگی ترین فنی اور درس گاہیں بنا کر مراعات یافتہ طبقات کے لیے تعلیم کو محدود کرنے میں اہم کردار بھی ادا کررہے ہیں۔ چناں چہ تعلیمی سرگرمیاں غریبوں کی سطح پر محدود ہوتی جارہی ہیں۔ لہٰذا معیار تعلیم بہتر ہونے کے بجائے گرتا جارہا ہے، دنیا بھر میں مشرقی ممالک ہوں یا مغربی ممالک انہوں نے اپنے معیار تعلیم کو ایک ہی رکھا ہے اور وہ ’’تعلیم سب کے لیے‘‘ کے نعرے پر گامزن ہیں۔ ان کا ایک ہی نظام تعلیم ہے اور طلبہ و طالبات اسی نظام سے گزر کر آتے ہیں۔ لہٰذا ان کے دلوں میں اپنے ملک اور اپنی قوم سے ان کی شناخت اور محبت کا جذبہ بیدار رہتا ہے، لہٰذا تعلیم کے حصول کے بعد اپنی عملی زندگی کے آغاز ہی سے اپنا بنیادی کام ملک و قوم کی خدمت ہی سے شروع کرتے ہیں۔ یکساں ’’نظام تعلیم‘‘ ہی ان ممالک و اقوام کو ترقی و خوشحالی کے سفر پر گامزن کرنے میں مددگار رہا ہے۔ ہم نے ہر کام میں شخصی فوائد کو بنیاد بنا کر کیا ہے، تعلیم کو بھی مراعات یافتہ طبقات کے لیے محدود کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پالیسی سازوں کو ایسے اقدامات لینے کی توفیق عطا فرمائے جو ملک و قوم کو جوڑ سکیں اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کو بااختیار اور حاکمانہ انداز سے بچانے کے اقدامات کرسکیں۔