سابق وزیراعظم میاں نواز شریف صاحب

155

ڈاکٹر مظہر الحق
ہر اخبار میں میاں صاحب کے نام سے پہلے ’’نااہل وزیراعظم‘‘ کا لفظ استعمال کیا جارہا ہے لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میاں صاحب سے اختلاف کے باوجود میرے دل کے کسی کونے کھدرے میں میاں صاحب کے لیے ہمدردی کا عنصر موجود ہے، اس لیے میں نے اس لفظ کو استعمال نہیں کیا۔ حالاں کہ نااہل کا لفظ عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے۔ دونوں آنکھوں کے اندھے کو نابینا کہتے ہیں۔ ایک آنکھ والے یا ایک آنکھ سے معذور شخص کو کانا کہتے ہیں لیکن ان کو پکارتے وقت یہ الفاظ استعمال نہیں کیے جاتے۔ اس لیے میں نے بھی ادب کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
میاں صاحب! آپ سادہ لوح عوام سے پوچھتے ہیں ’’مجھے کیوں نکالا گیا؟ میری کوئی کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ میاں صاحب! آپ عوام کو دھوکا دے سکتے ہیں لیکن اعلیٰ عدالت کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ عدالتوں کے سامنے تو آپ اور آپ کی اولاد کسی بھی سوال کا شافی جواب نہیں دے سکی۔ جج صاحبان کے پہلے فیصلے میں دو جج صاحبان نے آپ کو نااہل قرار دیا۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد جب پانچوں معزز جج صاحبان نے متفقہ طور پر آپ کی نااہلی کا فیصلہ سنایا تو وہی جج صاحبان آپ کے لیے اسٹیبلشمنٹ اور نادیدہ طاقتوں کے آلہ کار بن گئے۔ آپ میں اتنی جرأت نہیں کہ ان نادیدہ طاقتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے نام ہی بتادیں۔
آپ اپنے دورِ حکومت کے کارنامے بیان کرتے نہیں تھکتے۔ آپ فرماتے ہیں میں نے موٹر وے بنائی، ملک میں سڑکوں کا جال بچھایا، فلائی اوورز بنائے گئے، اورنج ٹرین کا منصوبہ جاری ہے، یہ اور دوسرے کام بلاشبہ قابل ستائش ہیں۔ آپ کی اطلاع کے مطابق ان کے متعلق بھی طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہورہی ہیں۔ ’’کمیشن کھایا جارہا ہے، اپنا سریا کھپایا جارہا ہے‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔ چلو ہم ان الزامات کو رد کرتے ہیں، لیکن سوال یہ پید اہوتا ہے کہ کیا ان منصوبوں پر خرچ شدہ کثیر رقم آپ نے اپنی جیب سے لگائی اور آپ یہ کام ڈیوٹی سے فارغ اوقات میں کرتے رہے؟۔ میاں صاحب! یہ سب کام حکومت کے فرائض منصبی میں شامل ہیں۔ یہ کام کرکے آپ نے قوم پر کوئی احسان نہیں کیا، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ نے اپنا فرض پورا کردیا۔
1998ء میں انڈیا کے مقابلے میں پاکستان نے جو ایٹمی دھماکے کیے آپ اس کا کریڈٹ بھی صرف اپنی ذات کو دے رہے ہیں حالاں کہ اس میں متعدد کی خدمات شامل ہیں۔ شنید ہے کہ یہ دھماکے بھی فوجی جرنیلوں کے دباؤ میں آکر کیے گئے۔ رہا ’’سی پیک‘‘ منصوبے کا معاملہ، اگر آپ برسراقتدار نہ ہوتے تو کوئی دوسرا شروع کردیتا۔ اس منصوبے کی اہمیت ہم سے زیادہ چین کے لیے ہے جس کا اس میں اپنا مفاد ہے۔ ہر ملک اپنا مفاد سامنے رکھتا ہے، چین نے ’’برکس اعلامیہ‘‘ میں ہمارے ازلی دشمن انڈیا کا ساتھ دیا۔ یہ چین کی مجبوری سہی! لیکن ہمارے لیے کھلا اعلان ہے کہ ’’مجھ پر حد سے زیادہ بھی بھروسا نہ کرو۔ پہلے اپنا مفاد پھر پاکستان‘‘۔
یہ آپ ہی کی حکومت تھی جس نے فروری 1999ء میں واجپائی کو براستہ واہگہ ڈھول ڈھمکے کے ساتھ لاہور لانے کا اعلان کیا۔ اس وقت جماعت اسلامی نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ ایسا نہ کریں۔ آپ نے جماعت اسلامی کے کارکنان کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بھلائے نہیں بھول سکتا۔ اس وقت کے امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر عبدالرشید ترابی کو زنجیروں سے جکڑ کر جیل میں ڈالا گیا۔ ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو اللہ کی مدد آپہنچتی ہے۔ پھر اللہ نے آپ کو مشرف کی شکل میں عذاب میں مبتلا کیا جس کے بعد آپ تو بہ تائب ہو کر جان کی امان مانگتے ہوئے سعودی عرب چلے گئے۔