میڈیا کے انسانی زندگی پہ اثرات

231

دعا وقار، کراچی
میڈیا انسانی زندگی کا انتہائی اہم عنصر ہے۔ انسان کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے میڈیا بلاشبہ ایک اچھا کام سرانجام دے رہا ہے۔ انسان ہر چیز سے باخبر رہتا ہے اب چاہے وہ درست ہو بھی یا نہیں، میڈیا سے آج کی دنیا کا ہر شخص فائدہ اٹھاتے ہوئے نظر آرہا ہے ہم نے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت میڈیا کی نظر کر دیا ہے۔ آج کے میڈیا کے پاس وہ طاقت موجود ہے کہ وہ اگر چاہے تو صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح کر کے باآسانی پیش کرسکتا ہے اور لوگ اسی کو اہمیت دیتے ہیں! وجہ اس کی یہ ہے ہم میڈیا پر اندھا اعتماد کرتے ہیں اور میڈیا اس کا غلط فائدہ اٹھاتا ہے!
میڈیا کے لوگوں پر غلط اثرات مرتب ہو رہے ہیں اگر ہم نیوز چینلوں کی جانب نظر دوڑائیں تو وہاں اپنی ریٹنگ کے چکر میں سیاست دانوں کی آپس میں لڑائی کروا دیتے ہیں۔ اس میں عام انسان کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ خبروں کی بات کریں تو اس طرح کی خبروں کو ترجیحی دیتے ہیں جو غیر مناسب ہوتی ہیں (جیسے عمران خان کی زندگی میں تیسری بیوی کی آمد) خبروں کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ چھوٹی خبر کب بڑی ہوجاتی ہے کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی! میڈیا جس خبر کو چاہتا ہے بڑا کر کے پیش کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے دبا دیتا ہے۔
تفریح کے چینلوں میں آنے والے ڈرامے اپنے اثرات بھرپور انداز میں ڈال رہے ہیں جس کو شاید نظر انداز نہیں کرسکتے! ڈراموں میں وہ کہانی دکھائی جاتی ہے جو ایک خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتی، رشتوں کو پامال ہوتے دکھایا جاتا ہے اور اس طرح کے ڈراموں کو ڈیمانڈ قرار دیدیا
جاتا ہے۔ ڈرامے آج کل کا بچہ بچہ دیکھتا ہے اور ڈراموں میں دوسری شادی، ماں نہیں بننا چاہتی جیسی کہانی دیکھی جاتی ہیں اب اس طرح کے ڈرامے اپنے جو اثرات مرتب کریں گے وہ ہمیں دکھائی دے رہا ہے زیادتی کیس، لڑکیوں کا گھروں سے بھاگنا، ماں باپ کی عزتوں کا پامال ہونا۔ ڈراموں میں نامناسب کپڑوں کا استعمال ذہین میں گندگی کو پروان چڑھاتا نظر آرہا ہے۔
میڈیا کے برے اثرات اپنا رنگ چھوڑ تے نظر آ رہے ہیں جو معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن رہا ہے نوجوان نسل اس کو صحیح سمجھ کر آج اپنے ماں باپ کے سامنے سوال کرتی ہے، دوستی کی جو غلط تصویری میڈیا پر ڈراموں کے ذریعے دکھائی جاتی ہے وہی دوستی آج ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ بہن بھائیوں کی محبت کو نفرت کی نذر کردیا گیا ہے۔ میڈیا کا صحیح استعمال انسان کی زندگی میں امن کا باعث ہوسکتا ہے۔