اور جوتا چل گیا

654

صاحبو! کئی دن سے ہم بیمارہیں۔ ایسے میں دوا، کتابیں معمول ہیں۔ پچھلی مرتبہ بیمار پڑے تھے تو خواب میں پاکستان کے سابق اور موجودہ جنرلوں کو بے ساختہ قہقہے مارتے اور ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے دیکھا تھا۔ وجہ پوچھی۔ بولے کیا آپ نے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس صاحب کا یہ بیان نہیں پڑھا ’’ججوں کو دباؤ میں لانے والا ابھی پیدا نہیں ہوا۔‘‘ جنرل پرویز مشرف نے کہا تھا ’’وہ زندگی میں پہلی مرتبہ کسی عدالت میں گئے۔ جج عدالت میں داخل ہوا تو عدالتی قوانین کے مطابق مجھے بھی کھڑا ہونا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے ایسا کیا تو انہیں شرمندگی محسوس ہوئی۔‘‘ سیاست دانوں کو پیہم نشانہ بنانے والی ہماری عدلیہ ہی نے شاید کسی جنرل کو توہین عدالت کا نوٹس بھیجا ہو۔ ایسا ممکن بھی کیسے ہے۔ وہ تو مارشل لاؤں، ایل ایف او کی تصدیق اور جنرلوں کے نوٹس پر عدالتی فیصلوں میں ترامیم کرتی رہی ہے۔ آج ہی محترم چیف جسٹس نے فرمایا ہے: ’’موجودہ حکومت مسلسل دس سال سے پنجاب میں حکومت کررہی ہے بتائیے کیا کام کیا‘‘ پہلے ہم سمجھے کہ یہ عمران خان کا بیان ہے۔ پنجاب میں شہباز حکومت کے کاموں کی تردید کے لیے قلب وجگر کی جو سختی چاہیے وہ شاید عمران خان کے پاس بھی موجود نہ ہو۔ ٹی وی کھولا تو وہاں نواز شریف پر جوتا موضوع تھا۔ جوتے سے نہ جانے کیا کیا یاد آتا چلا گیا۔
جوتوں کے ذکر پر سب سے پہلے وہ پری پیکریاد آگئی لفظ جس کے ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ پروین شاکر کی عادت تھی کہ وہ کسی محفل میں جاتیں تو اپنے جوتے اتار دیتی تھیں اور ننگے پیر پھرا کرتی تھیں۔ واپسی پر اکثر ان کے جوتے گم ہوجایا کرتے اور وہ ننگے پاؤں گھر آیا کرتیں۔ ننگے پاؤں پر بزرگ مصور مقبول فدا حسین یاد آگئے۔ ان کے پیر جوتوں سے مستقل آزاد رہتے تھے۔ انہیں ننگے پاؤں گھومنے میں بڑا مزا آتا تھا۔ ایک وقت
ایسا آیا کہ انہوں نے جوتا پہننا ہی چھوڑ دیا۔ پکاسو کے بعد جنہیں بیسویں صدی میں سب سے زیادہ شہرت ملی، جن کی کوئی پینٹنگ ایک کروڑ سے کم میں فروخت نہیں ہوتی تھی، ایک بار جب ہوٹل پہنچے تو جوتے نہ پہننے پر ہوٹل کے دربان نے انہیں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ فلمی ہورڈنگز سے اپنے کیریر کا آغاز کرنے والے ایم ایف حسین ہی نے گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں دنیا کے سب سے بڑے نیلامی اداروں سے جدید ہندوستانی فن وثقافت کا تعارف کرایا تھا۔ تب سے ہندوستانی فنکاروں کی تصویریں کروڑوں میں بکنے لگیں۔ ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ کسی بھی بڑے واقعے پر پینٹنگ کے ذریعے اپنے ردعمل کا اظہار کردیا کرتے تھے۔ اپنی کار پر تصویریں بنا کر اس کی نمائش کرنا، شادی کے کارڈ، وزیٹنگ کارڈ، بک کور ڈیزائن کردینا۔ فرنیچر اور کھلونے ڈیزائن کرنا، اپنی پینٹنگ کو ساڑیوں پر نمایاں کرنا، سگریٹ کی ڈبی پر فوراً تصویر بنا کرکسی دوست کی نذر کردینا، ہوٹل، ریسٹورنٹ یا پان کے کھوکے پر تصویر بنا دینا، عالی شان عمارتوں پر میورل بنانا۔ وہ فنکاری کے لیے کسی خاص ماحول
کی ضرورت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ ان کے مطابق اگر کچھ نہ ہو تو کوئلے سے بھی دیوار یا زمین پر تصویر بنائی جاسکتی ہے۔ گھوڑوں کو کینوس پر اتارنا ان کا ٹریڈ مارک سمجھا جاتا تھا۔ وہ مادھوری ڈکشٹ کے حسن اور فن کے دلدادہ تھے۔ گج گامنی سیریز میں انہوں نے مادھوری کو اس خوب صورتی سے پینٹ کیا کہ نوجوان نسل دیوانی ہوگئی۔ وہ مادھوری کو کبھی اجنتا اور ایلورا کے غاروں میں لے گئے تو کبھی شاہوں کے درباروں میں۔ ہندو دیوی دیوتاؤں اور بھارت ماتا کی پینٹنگز کے باعث حسین متعدد بار ہندوستانی انتہا پسندوں کا نشانہ بھی بنے۔ 2007 میں کیرالہ ہائی کورٹ نے انہیں ایوارڈ دینے پر پابندی بھی لگا دی تھی۔ وہ جہاں بھی جاتے سیاسی جوتے ان کا پیچھا کرتے رہے بالآخر انہوں نے بھارت انتہا پسندوں کے لیے چھوڑ دیا۔
بھارت میں جوتا پہلی بار لکڑی کی کھڑاؤں کی شکل میں اساطیری دور میں ملتا ہے۔ رام کے پتا کی تین رانیاں تھیں ان میں ایک کا نام کیکئی تھا۔ رام خاندان میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے حکومت کے سب سے زیادہ حقدار تھے۔ کیکئی اپنے بیٹے بھرت کو تخت کا وارث بنانا چاہتی تھی۔ اس نے چالاکی سے رام کو 14برس کے لیے جلاوطنی پر مجبور کردیا، لیکن کیکئی کا بیٹا بھرت اپنے بڑے بھائی کا عقیدت مند تھا۔ وہ رام کو محل چھوڑنے سے تو نہ روک سکا لیکن اس نے رام کے تخت پر بیٹھنے سے انکار کردیا اور گدی پر رام کی کھڑاویں رکھ دیں۔ یہ کھڑاویں راج گدی پر 14برس حکومت کرتیں اور رام کا انتظار کرتی رہیں۔ جوتوں اور حکومت کے تعلق کی یہ پہلی مثال ہے۔
عرب شاعری میں بھی جوتوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ اہل عرب کی تہذیب وثقا فت پر محمود لشکری آلوسی کی کتاب بلوغ الادب میں جوتوں پر اشعار کا باقاعدہ ایک باب موجود ہے۔ ان میں ایک شعر یوں بھی ہے۔
’’تپتی ریت پر چلنے والے جن کے پاؤں کانٹوں سے زخم زخم ہوجائیں، وہ پیروں میں کچھ بھی پہن سکتے ہیں‘‘۔
شاعر بے بدل، سرتاج شعرائے اردو میر تقی میر کی ایک غزل کا مقطع ہے:
اے میر غیر تجھ کو گر جوتیاں نہ مارے
سید نہ ہووے پھر توکوئی چمار ہووے
الطاف حسین حالی نے کہا تھا
اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت
بعض حضرات کا کہنا ہے پہلا مصرع اصل میں یوں ہے ’’اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار‘‘
ایک صاحب محفل کو اپنے اشعار سے بور کر رہے تھے کسی نے ان کے جوتے غائب کردیے:
اک شب جو بزم میں کہیں جوتے جو کھو گئے
ہم نے کہا بتائیے گھر کیسے جائیں گے
کہنے لگے کہ شعر سناتے رہیں یونہی
گنتے نہیں بنیں گے ابھی اتنے آئیں گے
اکبر الہ آبادی نے کہا تھا
بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے ایک مضمون لکھا
ملک میں مضمون نہ پھیلا اور جوتا چل گیا
بوٹوں سے ذہن فوجی بوٹوں کی طرف چلا جاتا ہے جو فوجی حکومت کی آمد کی اطلاع ہوتے ہیں۔ جو سیا ست دانوں کے لیے امین اور صادق کے پیمانے بناتے ہیں۔ نیب جیسے ادارے تشکیل دیتے ہیں۔ عدالتیں نہ صرف ان کے حق حکومت کی گواہی دیتی ہیں بلکہ بن مانگے اس آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت بھی دے دیتی ہیں جس کے بارے میں سول حکومت کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ آئین پارلیمنٹ سے بالاتر ہے۔ جرنل پرویز مشرف واحد فوجی سر براہ تھے جن پر جوتا چلا تھا۔
(جاری ہے)