احتساب کا خواب

312

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ٹی وی اینکرز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے یہ چونکا دینے والی بات کی ہے کہ فوج سمیت سب کا احتساب کیا جائے۔ جمہوریت پسند ہوں فوج آئین وقانون کے ساتھ کھڑی اور سیاست الگ ہے۔ کوئی مارشل لا نہیں لگے۔ کسی صورت ملازمت میں توسیع نہیں لوں گا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے آئین اور جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونے اور فوج کے احتساب کی بات عین اس وقت کی ہے جب ملک میں جمہوریت کی گاڑی انتخابی مراحل اور مدارج کی صورت میں رینگ تو رہی مگر دور تک پٹڑی غیر یقینی اور شکوک کی دھند میں لپٹ کر رہ گئی ہے۔ سسٹم سے ناراض بلکہ آماد�ۂ بغاوت میاں نوازشریف اس وقت عوامی جلسوں میں یہ تاثر دینے میں مصروف ہیں کہ برسوں پہلے جس ’’امپائر‘‘ کی اُنگلی اُٹھنے کی پیش گوئی کی گئی تھی وہ امپائر درحقیقت فوج اور عدلیہ ہی تھی اور ان کی نا اہلی کی صورت میں وہ انگلی اُٹھ بھی چکی ہے۔ اس تاثر کو عوام میں پزیرائی بھی مل رہی ہے۔ شاید یہی وجہ کہ کبھی منصف اعلیٰ جسٹس ثاقب نثار کو قسم کھا کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں بلکہ وہ آئین کے ساتھ ہیں اور کبھی سالار اعلیٰ کو یہ وضاحت کرنا پڑتی ہے کہ وہ جمہوریت اور آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سالار اعلیٰ نے تو آگے کی بات کر کے بھی احتسابی عمل میں شامل کر نے پر اصولی اتفاق کیا ہے۔ کل تک اس بات کو ناممکنات میں سمجھا جاتا تھا اب فوجی سربراہ اپنے ادارے کو احتسابی عمل کے لیے پیش کر کے اس ناممکن کے ممکن ہونے کا یقین دلارہا ہے۔
پاکستان کی تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو ملک میں کبھی حقیقی احتساب کا عمل شروع ہی نہیں ہوا۔ اگر کبھی احتساب اور جواب دہی کا نعرہ بلند بھی ہوا تو اسے ایک مذاق کی صورت میں وقت کی ہوا میں اُڑا دیا گیا۔ لطیفوں اور قہقہوں کی دھند میں لپیٹ کر بے وقعت کر دیا گیا۔ یہ نعرہ لگانے والے کو معاشرے میں ’’نکو‘‘ اور تنہا کردیا گیا۔ فضاء کچھ ایسی بنا دی گئی کہ احتساب کا نعرہ لگانے اور یہ مطالبہ دہرانے والے کی شبیہ پر ’’انوکھا لاڈلہ کھیلن کو مانگے چاند رے‘‘ کا مستقل اسٹکر چسپاں کر دیا گیا۔ پاکستانی سیاست کے کئی مستانے اور دیوانے احتساب کے نعروں اور خوابوں کے ساتھ زرق خاک ہوتے رہے۔ حالاں کہ احتساب ایک مہذب اور جمہوری معاشرے اور کسی بھی نظام کی بنیادی ضرورت ہے۔ دنیا میں احتساب کاعمل مستقل اور مسلسل عمل ہے جو مطالبات اور نعروں کا محتاج نہیں ہوتا۔ حکمران طبقات نے اگر احتساب کی ضرورت محسوس بھی کی تو حکومت وقت نے ایک تابع مہمل ادارے اور سربراہ کی نگرانی میں اس کام کا آغاز کیا تاکہ احتساب کی بندوق کا رخ مخالف سمت ہی میں رہے۔ ان کی پیہم کوشش رہی کہ اس بندوق کا رخ ان کے عہد اقتدار میں خود ان کی جانب نہ ہونے پائے۔ یہ معجزہ آزاد اور حکومتی اثر رسوخ سے ماورا ادارے کی صورت ہی میں ممکن ہو سکتا تھا شاید اسی خوف سے مستقل آزاد اداروں کو پروان چڑھنے ہی نہیں دیا گیا۔ اس کامیاب حکمت عملی کے باعث ملک کی حکمران اشرافیہ اور طاقتور ادارے ہمیشہ احتساب سے بالاتر رہے ہیں۔
سیاست دان اور بعض دانشور یہ کہتے رہے کہ اس ملک میں احتساب صرف سیاست دانوں کا ہی کیوں ہوتا ہے؟۔ یہ سوال اس لحاظ سے قطعی بے معنی ہے کہ اس ملک میں فوجی جرنیل اور سیاست دان اور بیوروکریسی سمیت کسی کا حقیقی احتساب ہوا ہی نہیں۔ دور بدلتے ہی احتساب کے تقاضے اور رنگ ڈھنگ ہی بدلتے رہے۔ ایک دور کے قابل احتساب کردار دوسرے دور میں صاف وشفاف ہو کر ہی سامنے نہیں آئے بلکہ حکمرانی کی مسند پر بھی فائز ہوتے رہے۔ یوں احتساب اور اقتدار کی میوزیکل چیئر کا کھیل برسوں سے جاری ہے۔ اب آرمی چیف کی طرف سے فوج کو بھی احتساب کے دائرے میں لانے کی بات کرکے تیزی سے بدلتی ہوئی سوچ اور ایک نئے رجحان کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس عمل کا آغاز جنرل پرویز مشرف سے ہورہا ہے اور ایک عدالت نے ان کی گرفتاری اور جائداد کی ضبطی کے احکامات جاری کر رکھے ہیں۔ فوج کو چاہیے کہ جنرل پرویز مشرف دس برس تک ملک کے سیاہ وسفید کے مالک رہے ہیں۔ بطور حکمران ان کا ہر اقدام اور فیصلہ فوج کا فیصلہ نہیں تھا۔ چند اسٹرٹیجک اور بنیادی فیصلوں کے علاوہ کار حکومت چلانے کے تمام فیصلے وہ سویلین نظام اور افراد کی مشاورت سے کرتے تھے۔ جن میں ان کے کلاس فیلوز اور گلاس فیلوز بھی شامل ہوتے تھے۔ روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر ملک کی بے ڈھنگی سیکولرائزیشن، بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھانا او ر امریکا کے آگے بے قیمت سپر ڈالنا بھی ایسے ہی فیصلہ تھے جن کی ذمے داری تادیر فوج نے اُٹھانے سے انکار کیا تھا۔ یہی وہ فیصلے تھے جو پاکستان کو اپنی تاریخ کے مشکل ترین مسائل کا شکار بننے کا باعث بنے تھے۔ پاکستانی معاشرے کی اجتماعی طاقت اور سول اسٹرکچر بکھرنے کے قریب تھا۔ ایک بے نام عسکریت نے اس کے وجود کو گھن کی طرح چاٹنا شروع کیا تھا۔ یہ عسکریت جنرل پرویز مشرف کے فیصلوں کے ردعمل سے اپنی نظریاتی طاقت حاصل کرتی تھی۔ اس لیے یہ وہ تاریخی مقام اور ٹرننگ پوائنٹ ہے جہاں پاکستان کو بدلنا ہے۔ یہ لمحات بدلے بغیر گزر گئے تو پاکستان زندگی کی راہوں پر ماضی کی طرح گھسٹتا اور رینگتا چلا جائے گا۔
یہ وقت ہے کہ اصطلاحات کا ناجائز استعمال کرنے کے بجائے انہیں احترام اور تقدس دیا جائے تاکہ احتساب اور انصاف جیسی اصطلاحات پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔ سیاست دانوں کو بھی یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ صرف انہی کا احتساب کیوں؟۔ حقیقت میں تو احتساب سیاست دانوں کا بھی نہیں ہوا۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے تو عوام کو یقین ہے کہ چند ماہ بعد منظر نامہ یکسر تبدیل ہو سکتا ہے۔ ماضی کے این آر او کی طرح پہلے پردے کے پیچھے ڈائیلاگ ہو گا اور پھر ایک ڈیل برآمد ہوگی اور یوں احتساب کا زور ٹوٹتا چلا گیا اور بس ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔