جامعات میں سیاست

236

سندھ اسمبلی نے سرکاری جامعات کے جس ترمیمی ایکٹ کی منظوری دی ہے اس پر جامعات کے سینئر اساتذہ، طلبہ اور ملازمین نے شدید احتجاج کیا ہے لیکن یہ معاملہ محض احتجاج کا نہیں ہے۔ اسمبلیوں میں قانون سازی کسی بھی ادارے یا شعبے کی بہتری کے لیے کی جاتی ہے لیکن مذکورہ بل کے قانون بننے کی صورت میں جامعات اپنے روایتی وقار سے محروم ہوجائیں گی۔ یہ درست ہے کہ 18 ویں آئینی ترمیم نے تعلیم کو صوبائی شعبہ قرار دیا ہے لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اس حوالے سے فیصلے سیاسی مفادات کے تابع رہ کر کیے جائیں۔ مثال کے طور پر یونیورسٹیز کا چانسلر گورنر ہوا کرتا تھا اب 18 ویں ترمیم کی آڑ میں چانسلر وزیراعلیٰ کو بنایا جارہاہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا خصوصاً سندھ میں طویل عرصے گورنر ایم کیو ایم کا رہا اور جامعات کے وائس چانسلر سے لے کر مالی تک کے تقرر میں سیاسی مفادات کا کھیل رہا اور شیخ الجامعہ کو اس حد تک رسوا کیا گیا کہ انہیں 90 کی حاضری کے بغیر تقرر نامہ نہیں ملتا اور توسیع بھی نہیں ملتی تھی۔ اب یہ منصب وزیراعلیٰ کے پاس آجائے گا جو سراسر سیاسی ہوتا ہے۔ پھر جو کچھ جامعات میں ہوگا وہ سامنے ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ جامعہ میں تقرر، تبادلے پرو وائس چانسلر کے تقرر اور دیگر فیصلوں کا اختیار وزیراعلیٰ کو دینے کے لیے تو سیاست جائز ہے لیکن طلبہ کو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے یونین چلانے کا اختیار اس لیے نہیں دیا جاتا کہ اس سے تعلیمی اداروں میں سیاست آجائے گی۔ اب تو ایکٹ کے ذریعے وائس چانسلر بھی سیاسی منصب بن جائے گا۔ اسی طرح جامعات میں داخلہ پالیسی،سینڈیکیٹ وغیرہ پر بھی حکومت کا کنٹرول ہوجائے گا۔ ایک اور سنگین معاملہ کسی اچھے ’’ایڈمنسٹریٹر‘ کو بھی وائس چانسلر بنانے کی شق ہے۔ گویا کل کسی کلرک یا سرکاری سیکرٹری کو ریٹائرمنٹ کے بعد وائس چانسلر بنادیا جائے گا۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے اس حوالے سے بھرپور مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔ اگر حکومت جامعات میں سیاست کررہی ہے تو سیاسی جماعتوں کو بھی اس کے آگے بند باندھنے کا حق ہے۔ اس صورتحال میں اگر طلبہ یونینیں موجود ہوتیں تو طلبہ کی قوت حکومت کو کوئی غلط کام نہ کرنے دیتی۔