نااہل و سابق وزیر اعظم اور صدر مسلم لیگ ن نواز شریف کو ان کے اپنے شہر لاہور کے جامعہ نعیمیہ میں اتوار کو جوتا مارا گیا۔ الیکٹرونک میڈیا نے پہلی خبر کے طور پر نواز شریف پر جوتا پھینکنے کی خبر چلائی۔ مجھے جوتا ’’پھینکنے‘‘ کے جملے پر اعتراض ہے۔ پھر بھی میں نے ’’جوتا مارنے‘‘ اور ’’پھینکنے‘‘ کے فرق کے بارے میں استاد محترم اطہر ہاشمی صاحب سے راہنمائی مانگی۔ ہاشمی صاحب کا کہنا تھا کہ: ’’جوتا ہدف کے مطابق لگا تو اسے ’’جوتا مارنا‘‘ کہا جاتا ہے جب کہ جوتا اچھالنا یا جوتا پھینکنا وہ عمل ہوتا ہے جس کا ہدف کوئی نہ ہو۔ ہاشمی صاحب کی بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ: ’’میاں صاحب کو جوتا مارا گیا ہے اس لیے میڈیا کے لوگوں کو اس بات کی تصیح کرلینا چاہیے‘‘۔
میاں نواز شریف کو جوتا مارنے کے واقعے پر سیاست دانوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ عمران خان، بلاول زرداری ، آصف زرداری اور دیگر سب ہی نے اس کی مذمت کی اور کہا کہ متعلقہ اداروں کو اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہیے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاست دان انتخابات کے قریب مختلف جلسوں میں ’’جوتے پڑنے‘‘ کے خدشات کی وجہ سے خوف زدہ اور پریشان ہوگئے ہیں۔ عام بات یہ ہے کہ ہر باشعور شخص کسی بھی وقت اپنی غلطیوں کا ردعمل سامنے آنے کے خوف میں مبتلا رہتا ہے۔ چوں کہ ہمارے سیاسی چمپئنوں سے بہت کم لوگ خوش تو کجا مطمئن بھی نہیں رہتے اس لیے ایسے واقعات کے رونما ہونے کے خدشات تو ہمیشہ ہی رہا کرتے ہیں۔
نواز شریف کا جوتا کھانے یا جوتے کا نشانہ بننے کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی کئی مقامی اور بین الاقوامی شخصیات کو ان کی کسی کا یا عمل کا ردعمل کے طور پر یہ بھی ’’اعزاز‘‘ حاصل ہوچکا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ بہت سے سیاست دان اپنے مخالفین کی گولیاں کھا کر عزت میں اضافہ کرکے اس جہاں نے فانی سے رخصت ہوچکے ہیں اور شہادت کا رتبہ بھی حاصل کرچکے ہیں۔ مگر جوتا کھانے سے کسی کو ’’غازی‘‘ کا اعزاز بھی نہیں ملتا۔ میرا خیال ہے کہ آئندہ موقع ملے تو نواز شریف کی جماعت کو بھاری اکثریت حاصل کرنے کی خوشی میں ایسا بل منظور کرا لینا چاہیے جس کے تحت جمہوری جدوجہد میں ’’جمہور‘‘ کا نشانہ بننے پر ایوارڈ کا حقدار قرار دیا جانا چاہیے کیوں کہ جو بات یا عمل پر جمہوریت پسند جوتا کھاتے ہیں بہرحال ان کا تعلق جمہور سے ہی ہوتا ہے۔
چوں کہ امریکا کے سابق صدر بش اور بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی بھی جوتا کھا کر اپنا نام ’’بہت بڑے‘‘ لوگوں میں شامل کراچکے ہیں۔ جب کہ اپنے ملک کے اندر آصف علی زردری، خورشید قصوری، شیخ رشید بھی ’جوتا باری‘ کا شکار ہوچکے ہیں۔ یہ سب کسی نہ کسی خوبی کے مالک ہیں تب ہی تو عام لوگوں نے انہیں اس قابل جان کر ان کی طرف جوتا پھینکا تھا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف پر جوتا پھینکا گیا تو اسٹیج پر موجود بعض لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ واضح تھی۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے نواز شریف پر جوتا مارنے کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ: ’’جوتا مارنے والے کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں ہے‘‘۔ ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ عمران خان نے یہ وضاحت کیوں کی؟ کس کے الزام پر کی؟ اطلاع آئی کہ عمران خان پر جوتا پھینکنے کی کوشش کرنے والے مسلم لیگ نواز کے کارکن کو گرفتار کرلیا گیا ہے جس نے مبینہ طور پر پنجاب کے وزیرقانون رانا ثناء اللہ کے داماد کے کہنے پر یہ کوشش کی تھی۔
سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ میں ’’داماد‘‘ اس قدر فعال کیوں ہیں؟ کیا مسلم لیگی اپنے دامادوں سے صرف اسی طرح کے کام لیتے ہیں یا یہ داماد ایسی کاموں کے شوقین ہیں۔
بہرحال بات ہورہی تھی جوتا ماروں کی۔ میرا خیال ہے کہ جوتا باری انتہائی نرم ردعمل ہے۔ نواز شریف پر دارالعلوم کی تقریب میں جوتا مارنے کے واقعے پر لاہور سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق جوتا مارنے اور اس کی پلاننگ کرنے والے افراد دراصل نواز شریف کے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا جواب دینا چاہتے تھے۔ مگر سوال تخلیق کرنے اور ہجوم سے پوچھنے والے نااہل وزیر اعظم سے میری درخواست ہوگی کہ وہ پلیز اب یہ سوال مت کرنا کہ: ’’مجھے جوتا کیوں مارا‘‘۔