پاکستان میں پانی کو سیاسی مسئلہ بنادیا گیا ہے، ملک میں آبی ذخیرہ نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال مزید سنگین ہوتی جارہی ہے ۔ آبی ماہر سردار محمد طارق

320

پاکستان واٹر پارٹنر شپ کے سربراہ آبی ماہر سردار محمد طارق، معروف کلائنمنٹ چینج ماہر ڈاکٹر پرویز امیر اور فیروزاں کے محمود عالم خالد کراچی پریس کلب میں صحافیوں سے پاکستان کی آبی صورتحال پر بات چیت کررہے ہیں۔

کراچی ( اسٹا ف رپورٹر ) پاکستان واٹر پارٹنر شپ کے سربراہ آبی ماہر سردار محمد طارق نے کہا ہے کہ پانی کا مسئلہ ہماری واٹر سیکورٹی سے منسلک ہے ، پاکستانی 9 ماہ ہائیڈرو لوجیکل خشک سالی کی زد میں رہتا ہے ۔ وہ کراچی پریس کلب میں صحافیوں سے پاکستان کی سنگین آبی صورتحال پر بات چیت کررہے تھے ۔ سردار طارق نے کہا کہ ہمیں اضافی پانی گرمی کے تین مہینوں میں ملتا ہے جس وقت مون سون کی بارشیں ہوتی ہیں اور گلیشیر پگھل رہے ہوتے ہیں ، باقی 9 مہینوں میں ملنے والے پانی کی مقدار ہماری ضرورت سے انتہائی کم ہوتی ہے ۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ہم 9 مہینے ہائیڈرو لوجیکل خشک سالی کی زد میں ہوتے ہیں اور یہ صورتحال آنے والے وقتوں میں مزید سنگین ہوجائے گی جس کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیل ہے ۔ ہمارے تمام دریا بین السرحدی ہیں اور ہندوستان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہمارے پانی پر ذخیرہ گاہیں تعمیر کرے جس کی وجہ سے ہماری واٹر سیکورٹی پر بدترین اثرات ہوسکتے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پانی کے ذرائع پر موسمیاتی تبدیل کے بھی بدترین اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے ہمارے تمام کلائمیٹک زون متاثر ہوں گے جو ہماری فوڈ سیکورٹی پر انتہائی سنگین اثرات مرتب کریں گے ۔ آبی ماہر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پانی کو سیاسی مسئلہ بنادیا گیا ہے جبکہ ملک میں آبی ذخیرہ گاہیں نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال اور بھی سنگین ہوتی جارہی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی واٹر پالیسی جلد از جلد بنائی جائے جس میں ان تمام مسائل کو حل کیا جائے اور پورے ملک میں پانی کو محفوظ کرنے کیلئے واضح اور ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں ۔ 

اس موقع پر عالمی طور پر معروف کلائنمنٹ چینج ماہر ڈاکٹر پرویز امیر نے کہا کہ کراچی میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے صورتحال سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے جبکہ درجہ حرارت میں ہونے والا اضافہ صورتحال کی سنگینی کو مزید بڑھا رہا ہے ۔ ا نہوں نے کہا کہ کراچی میں پانی کو ایک بزنس کے طور پر چلایا جارہا ہے ، مافیا ، ٹینکروں کے ذریعے بھی پانی بیچ رہی ہے جبکہ عام شہری پانی سے محروم ہے ۔

ڈاکٹر پرویز امیر نے کہا کہ ہم انفرااسٹرکچر اور پلازوں میں سرمایہ کاری کررہے ہیں جبکہ پانی کو نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ 300 ملین ڈالر کی لاگت سے ایک بڑاڈی سیلینیشن پلانٹ لگا کر کراچی کے شہریوں کی ضرورت کو پورا کیا جاسکتا ہے جبکہ ویسٹ واٹر کوری سائیکل کرنے کیلئے بھی علیحدہ سے ایک پلانٹ لگانے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی کا کچرا جس میں بڑی مقدار میں پلاسٹک شامل ہوتا ہے اس کی وجہ سے کچھ عرصے بعد سمندر صاف کرنے کے قابل بھی نہیں رہے گا ۔

ڈاکٹر پرویز امیر نے کہا کہ کاٹن اور شوگر کین ہماری معیشت کیلئے جان لیوا ثابت ہوں گے ۔ ان فصلوں کو کم سے کم کرکے ان سے بچنے والا پانی کراچی کے شہریوں کو مہیا کیا جاسکتا ہے ۔ ڈاکٹر پرویز نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایک50 سالہ منصوبے کے ذریعے ساحل سمندر کے کنارے 7 نئے شہر آباد کئے جائیں تاکہ ملک کے شہروں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آباد ی جس نے کراچی کو ہیٹ آئی لینڈ بنادیا ہے کے دباؤ کو کم کیا جاسکے ۔ ایسا نہ کیا گیا تو ایک بڑی تباہی ناگزیر ہوجائے گی ۔