ایوان بالا سینیٹ کے چیئرمین کی اہم ترین سیٹ پر بلوچستان کے آزاد امیدوار محمد صادق سنجرانی کی کامیابی کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس چناؤ میں ملک کی تینوں بڑی جماعتوں کو ناکامی کا سامنا کرنا جب کہ کامیابی دراصل ان قوتوں کی ہوئی ہے جنہوں نے چیئرمین سینیٹ کے لیے پی پی پی اور پی ٹی آئی کو یکجاکرکے آزاد امیدوار کو کامیاب کرانے کے لیے مجبور کیا۔ بلوچستان کے آزاد امیدوار کی کامیابی نے آئندہ ملک کی سیاست کی ’’ہوا کا رخ‘‘ بھی بتادیا ہے۔
12 مارچ کو سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں آزاد امیدوار صادق سنجرانی کی کامیابی غیر متوقع مگر سیاست کے چمپئنوں کے دعویداروں کی جگ ہنسائی اور عبرت ناک شکست سے کم نہیں ہے۔ یہی نہیں صادق سنجرانی کا چیئرمین سینیٹ منتخب ہونا چھوٹے صوبے کی کامیابی کے ساتھ بڑے صوبے کو بھی حیرت انگیز طور پر شکست سے دوچار کرنے کے مساوی ہے۔ اس تناظر میں کڑوی سچائی تو یہ بھی ہے کہ اپنی ذات میں تنہا صادق سنجرانی کی کامیابی دراصل جمہوریت کی دعویدار تینوں جماعتوں مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف اور ان کی حمایتی پارٹیوں کی اس لیے ناکامی ہے کیوں کہ یہ اپنے حجم میں بڑے ہونے کے باوجود سینیٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے کامیاب ہونے کے قابل بھی نہیں تھیں۔ حالات تو شاہد ہیں کہ یہ تینوں جماعتیں اپنی پارٹی کا چیئرمین منتخب کرانے کے لیے کسی جماعت اور آزاد اراکین سینیٹ کی حمایت حاصل کرنے میں بھی ناکام ہوچکیں تھیں۔ ان دونوں جماعتوں کی سیاسی بقاء اسی میں تھی کہ وہ طاقت ور عنصر کے اشارے پر صادق سنجرانی کی حمایت کرکے اپنی ناکامی کو مصنوعی طور پر کامیاب قرار دیتیں اور شکست کو بدل کر کامیابی کا کریڈٹ حاصل کریں۔
راقم کا تجزیہ تو یہ بھی ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین کے چناؤ میں اصل ناکامی تو اتفاقی طور پر اور اپنی خوش قسمتی سے بے نظیر بھٹو سے شادی رچاکر سیاست دانوں میں شامل ہونے والے ماضی کے چائلڈ اسٹار آصف زرادری کی سربراہی میں موجود ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کو ہوئی ہے۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت چاہتی تو وہ اپنا چیئرمین منتخب کراسکتی تھی۔ لیکن چوں کہ مسلم لیگ نواز کے قائد نواز شریف پہلے ہی رضاربانی کو چیئرمین سینیٹ کے لیے نامزد کرنے پر غیر مشروط حمایت کا اعلان کرچکے تھے جب کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف زرداری نے مسلم لیگ کی اس پیشکش کو یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ ’’میں یہ نہیں چاہتا‘‘۔ عام خیال یہ ہے کہ آصف زرداری نے نواز شریف کی طرف سے رضا ربانی کو چیئرمین نامزد کرنے کی صورت میں حمایت کی پیشکش ایک سیاسی چال سے زیادہ نہیں تھی۔ حالاں کہ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ آصف زرداری، رضا ربانی سے بہت عرصے سے ناراض تھے کیوں کہ رضا ربانی ان کے بہت سے مشوروں اور ہدایات کو نظر انداز کردیا کرتے تھے۔
سینیٹ کے انتخاب کے نتائج کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس ایوان بالا کے چیئرمین کے انتخاب کے لیے بڑے صوبے کے امیدوار کے مقابلے میں چھوٹے صوبے کے آزاد امیدوار صادق سنجرانی کی کامیابی دراصل ان قوتوں کی کامیابی ہے جنہوں نے جمہوریت کے چمپئنوں کو غیر فطری طور پر صادق سنجرانی کی حمایت کے لیے مجبور کیا۔ وہ قوت اسٹیبلشمنٹ بھی ہوسکتی ہے اور وہ بھی ہوسکتی ہے جسے آصف زرداری ’’نان اسٹیٹ ایکٹرز‘‘ کہتے رہے ہیں۔ اگر یہی تاثر درست مان لیا جائے تو پھر تصور کیا جاسکتا ہے کہ آصف علی زرداری اور عمران خان نے کس کے اشارے پر ’’بھٹو کی پارٹی‘‘ اور ’’انصافیوں کا گلا دبانے‘‘ کی کوشش کی۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جو کچھ ہوا وہ جمہوری عمل کے تسلسل کے دوران جمہوری طریقے کے مطابق ہوا یا کرایا گیا۔ واضح تو یہ بھی ہورہا ہے کہ ’’گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو‘‘ کے مثل عمل کرایا ہی نہیں گیا بلکہ اس دیوار کے نشان تک مٹانے کی کوشش شروع کردی گئی ہے۔ یہ جدوجہد نہیں ہوتی تو واضح طور پر ’’33 اینٹوں‘‘ کی دیوار کو اس قدر آسانی سے نہیں گرایا جاسکتا تھا۔ نواز شریف کی جماعت کے پاس سینیٹ کے چیئرمین کی کامیابی کے لیے 33 واضح ووٹ تھے انہیں 20 ووٹوں کی ضرورت تھی جو آزاد سینیٹرز اور اپنی حمایتی جماعتوں کے تعاون سے پوری کرنے کا یقین تھا۔ اس حوالے سے مسلم لیگ کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان کا یہ کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔ ان پارٹیوں اور آزاد سینیٹرز نے بھی ان کے نامزد کردہ چیئرمین کو وعدے کے باوجود ووٹ نہیں دیا۔
جس ایوان میں وعدوں سے زیادہ نوٹوں کی اہمیت ہو وہاں وعدے وفا نہی ہوتے۔ جہاں ہارس ٹریدنگ کے نام پر ووٹوں کی خرید و فروخت ہو وہاں جمہوریت کے نام پر دھوکے بازی تو ہوا کرتی ہے۔ لوگوں کو خوشی فہمی ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کے لیے گھوڑوں کی خریداری و فروخت کی اطلاعات پر عدالت عظمی تحقیقات کروائے گی۔ لیکن اس خوش فہمی پر صرف طنزاً مسکرایا ہی جاسکتا ہے۔