جوتا کیوں چلا

517

تاریخ محض شاہوں کی داستان نہیں ہے۔ تاریخ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بھی آراستہ ہے جو اپنے وقت سے جڑی ہوئی ہیں تب یہ معمولی چیزیں بہت غیر معمولی ہوجاتی ہیں۔ ان میں سے ایک معمولی چیز جوتا ہے۔ امریکا کے سابق صدر بش کے مضبوط حوالوں میں سے ایک حوالہ جوتا ہے۔ وہ جوتا پڑنے کو اپنے عہد صدارت کا سب سے دلچسپ واقعہ بتاتے ہیں۔ ان کے نزدیک خود کو ظاہر کرنے کا یہ سب سے دلچسپ طریقہ ہے۔ انہوں نے کہا وہ اس واقعے سے ناراض نہیں ہیں۔ عراقی صحافی کی طرف سے صدر بش کو جوتا مارنے کے واقعے نے امریکا سمیت پوری دنیا میں غیر معمولی شہرت حاصل کرلی تھی۔ ایک سیکورٹی کمپنی نے اس واقعے کے بعد کہا تھا کہ سیکورٹی پر مامور افراد اس واقعے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس قسم کے واقعات کی روک تھام کی تربیت حاصل کریں گے۔ ہمارے خیال میں اس صورت میں اعلیٰ نشانچیوں کے ساتھ کرکٹ ٹیم سے منتخب فیلڈرز کا ایک سیکورٹی حصار بھی مرکزی شخصیات کے گرد تعینات کیا جا نا چا ہیے۔ تاکہ وہ آگے بڑھ کر بروقت جوتے کو کیچ کر سکیں۔ عمران خان کو کرکٹ کھیلنے کا ایک اضافی فائدہ ہوگا کہ انہیں اس قسم کے حصار کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انہوں نے جوتا پھینکنے والوں کو پہلے ہی وارننگ دے رکھی ہے کہ وہ نہ صرف کیچ اچھا پکڑتے ہیں بلکہ ان کا تھرو بھی زبردست ہے۔ چینی صدر پر جوتا پھینکے جانے کے بعد چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ انہیں آئندہ صحافیوں کی جانب سے ہاتھ کھڑا کرنے کے ساتھ ان کے جوتوں پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔ ہماری سوچ کے مطابق یہ تمام طریقے غیر موثر ہیں۔ ایک ہی طریقہ سود مند ہے۔ کسی گاؤں میں شیر آگیا اور روزانہ ایک آدمی کو کھا جاتا۔ معاملہ حد سے بڑھا تو بادشاہ تک پہنچ گیا۔ بادشاہ نے اپنے ایک قابل وزیر کو لوگوں کی داد رسی کے لیے بھیجا۔ وزیر گاؤں کے لیے چلا تو پانچ سو مزدور بھی ساتھ لیتا گیا۔ اس نے گاؤں کے اندر ایک بڑا سا پنجرہ بنوایا۔ جب پنجرہ بن کر تیار ہوگیا تو گاؤں کے لوگوں نے سکھ کا سانس لیاکہ اب وہ خوانخوار شیر کے حملوں سے محفوظ رہیں گے۔ اب شیر پکڑا جائے گا۔ گاؤں والے واقعی شیر کے حملوں سے محفوظ ہوگئے۔ وزیر نے تمام گاؤں والوں کو پکڑ کر پنجرے میں بند کردیا۔ حکمران طبقے اور تمام سیاسی قیادت کو بھی جوتوں کے حملوں سے بچانے کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں آج ہر جگہ اور ہر ایک پر جوتے اچھل رہے ہیں لیکن ایک دینی ادارے میں؟ دینی اداروں کی شناخت ادب اور احترام ہے۔ جامعہ نعیمیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے وہاں ختم نبوت کا قانون بدلنے کی وجہ سے طلبہ میں میاں صاحب کے خلاف غصہ پایا جاتا تھا۔ جامعہ نعیمیہ کے طلبہ اور اساتذہ نے انتظامیہ کو خبردار بھی کیا تھا کہ سابق وزیراعظم کو مدعو نہ کیا جائے لیکن میاں صاحب کے احسانات کے بار سے جھکی انتظامیہ نے اس جانب توجہ نہ دی۔ بہرحال اگر میاں صاحب انتظامیہ کی دعوت پر جامعہ نعیمیہ پہنچ ہی گئے تھے تو وہ جا معہ کے مہمان تھے۔ ان کی عزت سب کا فرض تھی۔ یہ ردعمل نہ ایک دینی ادارے کے شایاں تھا اور نہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق۔ میاں صاحب کو بھی سوچنا چاہیے کہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کیوں ہوا۔ کیوں ایک عرصے سے دینی حلقوں میں ان کے بارے میں شکوک وشبہات جنم لے رہے ہیں۔ ختم نبوت جیسے حساس معاملے پر اتنا بڑا آتش فشاں کیوں ان کے دور سے منسوب ہے۔ کیوں آج تک وہ اس کی مناسب وضاحت کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ میاں صاحب جس طرح اپنے نکالے جانے کے بعد قانونی عدالتوں پر عوامی عدالتوں کو فوقیت دینے کی بات کررہے ہیں اس سے ملک میں لاقانو نیت اور عدم برداشت کی فضا پروان چڑھ رہی ہے۔
دینی اداروں، دینی شخصیات، دینی جماعتوں اور اہل مذہب کے لیے بھی یہ واقعہ ایک وارننگ وسل ہے۔ ان کے اندر بھی اب دھیمے انداز، شائستہ لہجے اور دلیل کی زبان میں بات کرنے والوں کے بجائے ایسے شعلہ بیاں حضرات سامنے آرہے ہیں جو جذبات کی آگ بھڑکا کر سب کچھ بھسم کردینے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ مخالفین کی تکریم تو کجاوہ ان کے خلاف زبان وبیان کے وہ انداز اختیار کررہے ہیں جو علما اور شرفا تو درکنار بازاری لوگوں کا شیوہ بھی نہیں رہا۔ جو جتنا زیادہ بد زبان ہے وہ اتنا ہی زیادہ دینی حلقوں میں قابل قبول ہے۔ گالی کبھی اہل مذہب کی شناخت نہیں رہی۔ ستم یہ ہے کہ آج ہے، اور سنجیدہ دینی حلقے اس کی روک تھام کی کوئی قابل ذکر کوشش بھی کرتے نظر نہیں آرہے۔
ہمارے ارد گرد جو کچھ ہورہا ہے یہ بڑی مضحکہ خیز صورت حال ہے۔ عدلیہ سمیت تمام ادارے نشانے پر ہیں۔ کوئی فوج پر طعنہ زن ہے۔ کہیں پارلیمانی ادارے ہدف ہیں۔ کہیں شخصیات تنقید، سیاہی اور جوتوں کا ٹارگٹ۔ جو جس جا ہے سزا کا سزاوار ہے۔ کسی پر اعتماد ہے اور نہ بھروسا۔ سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب نے سیاست کے تمام امور پر فوقیت حاصل کررکھی تھی۔ اس کا نتیجہ بھی سامنے آگیا۔ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی صورت کچھ نئے لیڈرز ایجاد کرلیے گئے۔ اگر قول وفعل کا تضاد کوئی معیوب بات نہیں، تھوک کر چاٹنا کوئی برا عمل نہیں، اچھی بری شخصیات کا معیار کوئی مطلوب ومحبوب عمل نہیں، بائیس سالہ موقف کی خود اپنے ہی ہاتھوں دھجیاں اڑانا سیاسی دانش مندی قرار دی جائے تو یہ ایک اسمارٹ گیم تھی جس میں عمران خان اور آصف علی زرداری نے اپنے پتے بڑی مہارت سے کھیلے ہیں۔ وہ نواز شریف کا راستہ روکنے میں کامیاب رہے۔ ویل ڈن۔ عوام کا کیا ہے۔ چند دنوں میں بھول بھال جائیں گے۔ پھر عمران خان اور نواز شریف کے جلسوں کے پنڈال بھرنے کے لیے بھیڑ بکریوں کی طرح جمع ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ سیاسی قیادت نے عوام کی تربیت کی اور نہ عوام نے اپنے لیڈروں کی کج روی، ان کی کرپشن، ان کے اخلاق سے گرے ہوئے قول وفعل پر کوئی گرفت کی۔ تو پھر ایسی ہی جوتا مار فضا بنے گی۔ عوام کو ایسی ہی قیادت نصیب ہوگی۔ دل افسردہ ہے۔ آخر میں ایک قصہ سن لیجیے:
ایک نیک دل بادشاہ حکومت کے جھمیلوں سے تنگ آگیا تھا۔ اس نے حکومت اپنے وزیر کے سپرد کی اور سلطنت چھوڑ دی۔ ایسے میں ایک خاکروب بادشاہ کے ساتھ ہو لیا۔ دونوں چلتے چلتے ایک نئے ملک میں پہنچ گئے۔ وہاں نئے بادشاہ کا انتخاب ہورہا تھا۔ طریقہ یہ تھا کہ ملک کے سارے عوام ایک بڑے میدان میں جمع ہوجایا کرتے اور ایک پرندہ فضا میں چھوڑ دیا جاتا۔ جس کے سر پر پرندہ بیٹھ جاتا اسے بادشاہ بنا دیا جاتا۔ بادشاہ اور خاکروب بھی یہ تماشا دیکھنے کے لیے مجمع میں شامل ہوگئے۔ حسب دستور پرندہ چھوڑا گیا۔ پرندے نے ادھر ادھر دوچار چکر کاٹے اور خاکروب کے سر پر بیٹھ گیا۔ عوام اور وزرا نے خوشی کے شادیانے بجائے اور تاج خاکروب کے سر پر رکھ دیا۔ خاکروب نے بادشاہ سے کہا آپ بھی میرے ساتھ چلیے محل میں آرام سے رہیے گا۔ بادشاہ نے کہا بات یہ ہے کہ میں محلات کی فضا اور زندگی سے عاجز ہوں۔ میں اس ماحول میں دوبارہ جانا نہیں چاہتا لہٰذا مجھے رخصت دو۔ خاکروب بادشاہ نے کہا آپ ایسا کیجیے کہ محل کے باہر ایک جھونپڑی میں قیام کیجیے۔ میں دن میں بادشاہت کروں گا رات کو آپ کی خدمت میں آرہوں گا۔ بادشاہ نے کہا چلو یہ مناسب ہے۔ خاکروب پہلے دن تخت پر بیٹھا۔ اس کے سامنے ایک فریا دی آیا اور کہا فلاں شخص نے میرے گھر میں چوری کی ہے۔ بادشاہ نے چور کو طلب کیا اور حکم دیاکہ دونوں کو بیس بیس کوڑے اور سو جوتے مارے جائیں۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور فریادی آیا اور کہا میرے پڑوسی نے مجھے مارا ہے۔ خاکروب بادشاہ نے پھر دونوں کو بیس بیس کوڑے اور سو جوتے مارنے کا حکم دیا۔ غرض وہ سارا دن اسی طرح ظالم اور مظلوم دونوں کو پٹواتا رہا۔ رات کو وہ بادشاہ کی جھونپڑی میں پہنچا۔ بادشاہ نے کہا بھئی یہ تم کیا کررہے ہو۔ لوگ کہہ رہے ہیں بڑا ظالم بادشاہ آیا ہے۔ خاکروب بادشاہ بولا اگر اس قوم کو کسی نیک دل بادشاہ کی ضرورت ہوتی تو پرندہ آپ کے سر پر آکے بیٹھتا۔ یہ جیسی قوم ہے اس کو ویساہی حکمران ملا ہے۔