زبانی طلاق نہیں ہوگی؟

702

عدالت عظمیٰ نے نان نفقہ بیوی کا حق قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’یہ بات سمجھ لی جائے کہ محض زبانی کلامی طلاق کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ اس کے لیے قانونی تقاضے پورے کرنا لازمی ہوتے ہیں‘‘ منگل کو عدالت عظمیٰ کی کراچی رجسٹری میں محترم جسٹس گلزار احمد اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے بیوی کو نان نفقہ دینے سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس سجاد نے کہاکہ صرف زبانی کہہ دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی اور کاغذی کارروائی مکمل ہونے تک طلاق تصور نہیں کی جائے گی۔ کہا تو یہ جاتا ہے کہ پاکستان میں تمام قوانین اور آئین شریعت کے تابع ہیں اور کوئی بھی ایسا قانون نہیں بن سکتا جو اسلام کے منافی ہو۔ جسٹس صاحب نے طلاق واقع ہونے کے بارے میں جو فرمایا ہے شاید شریعت میں اس کا جواز ہو یا پھر انہوں نے ایوب خان کے نافذ کردہ عائلی قوانین کے تحت یہ فیصلہ دیا ہوگا جس کے تحت مرد کی دوسری شادی کو بھی مشکل ترین بنادیاگیا ہے۔ طلاق کے لیے شریعت میں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ کاغذی کارروائی مکمل ہونے تک طلاق واقع نہیں ہوگی۔ مسلم معاشروں میں صرف زبانی کلامی طلاق ہوجاتی ہے۔ طلاق دینا اﷲ کے نزدیک جائز کاموں میں ناپسندیدہ ضرور ہے مگر طلاق تو ہوجاتی ہے اور یہی قرآن و سنت کا حکم ہے لیکن شاید ان پر عائلی قوانین کو ترجیح دی جاتی ہے۔ کیا جسٹس صاحب کے علم میں یہ بات ہے کہ اﷲ اور اس کے احکامات پر سر تسلیم خم کرنے والی خواتین صرف زبانی طلاق کو طلاق سمجھیں گی اور عدالت کے حکم کی وجہ سے الجھن میں پڑ جائیں گی کہ طلاق ہوئی یا نہیں؟ محترم جج صاحبان یہ بھی دھیان میں رکھیں کہ اگر کسی شوہر نے اپنی بیوی کو زبانی طلاق دے دی تو مسلم معاشرہ اس کو مطلقہ ہی سمجھے گا اور اگر وہ اس کے باوجود شوہر کے ساتھ رہے گی تو اس پر زنا کا الزام لگ جائے گا۔ اور ایسے کچھ واقعات ہو بھی چکے ہیں۔ مذکورہ فیصلے سے انتشار پیدا ہوگا۔ بہتر ہوتا کہ علما کرام سے بھی مشورہ کرلیا ہوتا۔ پڑوسی ملک بھارت میں بھی مسلم خواتین کی ہمدردی کے نام پر عدالت نے تین طلاق کو جرم قرار دے دیا ہے۔ دوسری شادی کرنے پر جو قانونی پابندیاں لگائی گئی ہیں ان کی وجہ سے بھی لوگ چوری چھپے دوسری شادی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس کے لیے ایک شرط پہلی بیوی سے اجازت کی لگادی گئی ہے۔ کون سی عورت بخوشی اس کی اجازت دے گی؟ کراچی ہی سے تازہ خبر ہے کہ ایک شخص نے دوسری شادی کے لیے اپنے کو اغوا کا ڈراما رچایا اور یہ ظاہر کیا کہ اسے اغوا کرکے زبردستی شادی کرادی گئی۔ دوسری شادی پر پابندیاں نہ ہوتیں تو ایسے کسی ڈرامے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کو قتل کرنے کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔ اسلام نے شادی، طلاق اور خلع کو آسان بنایا ہے۔ ان کو مشکل ترین کردیاگیا۔ جج صاحبان نے اس معاملے میں اسوۂ رسولؐ صحابہ کرامؓ کے عمل اور جید مفتیان کرام کے فیصلوں پر ضرور نظر رکھی ہوگی۔ جہاں تک نان نفقے کا تعلق ہے تو یہ غالباً مطلقہ کے لیے ہے۔ کسی بھی عورت کو طلاق دے کر لاوارث نہیں چھوڑا جاسکتا۔ عدالت نے اس کے لیے 5 ہزار روپے کی رقم مختص کی ہے لیکن اس کا تعین مرد کی آمدنی سے ہونا چاہیے۔ اگر آمدنی زیادہ ہو تو نفقہ کی رقم بڑھ سکتی ہے لیکن اگر کوئی 5 ہزار بھی نہ دے سکے تو کیا حکومت کو اس کی ذمے داری قبول نہیں کرنی چاہیے؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ طلاق کے بارے میں کوئی رائے دینے سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل سے بھی رجوع کرلیا جاتا۔