ضمیر فروشوں کی تلاش

419

سینیٹ کے چیئرمین کے انتخابات تو جیسے تیسے ہوگئے اور اب تلاش ان کی ہے جنہوں نے ن لیگ سے وعدے کے باوجود دوسری پارٹیوں کے امیدواروں کو ووٹ دیا۔ بعض خبروں کے مطابق خود ن لیگ کے 7 ارکان سینیٹ نے مخالفت میں ووٹ دیے۔ نا اہل قرار دیے گئے وزیراعظم اور حکمران لیگ کے تا حیات قائد میاں نواز شریف نے سینیٹ میں شکست کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو دھوکا دینے والے ن لیگی اور اتحادی جماعتوں کے سینیٹروں کا کھوج لگائے گی لیکن پہلے کچھ اپنی اداؤں پر بھی غور کرلیا ہوتا۔ میاں نواز شریف آخری لمحات تک چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے لیے امیدواروں کا فیصلہ نہیں کرسکے۔ پہلے سینیٹ کے سابق چیئرمین میاں رضا ربانی کا نام لیتے رہے اس گمان میں آصف زرداری بھی ان کے نام پر اتفاق کریں گے کیونکہ رضا ربانی کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے۔ پھر بلوچستان کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایک بلوچ سینیٹر کا نام لے دیا۔ آخری لمحوں میں راجا ظفر الحق کو آگے کیا گیا جن کو اپنی مہم چلانے کا مناسب وقت بھی نہیں ملا۔ میاں نواز شریف کو اعتماد تھا کہ ان کے پاس سینیٹ کے 57 ووٹ ہیں اور اکثریت ان کے ہاتھ میں ہے، کسی کو بھی کھڑا کردیں گے جیت لازمی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ شکست جامعہ نعیمیہ میں ہونے والے افسوسناک واقعے سے زیادہ شدید ہے۔ اس شکست کی وجہ جمعیت علما اسلام کو بھی قرار دیا جارہاہے اور اس کی طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ اگر ن لیگ کے سینیٹر کسی اور کی جھولی میں اپنے ووٹ ڈال سکتے ہیں تو جن اتحادیوں کا تعلق براہ راست ن لیگ سے نہیں وہ بھی یہ کام کرسکتے ہیں۔ لیکن میاں نواز شریف کے دعوے کے مطابق ان کے 57 ووٹ کہاں گئے، انہیں تو صرف 47 ہی ملے۔ اب نو منتخب چیئرمین صادق سنجرانی کی عمر پر بحث شروع ہوگئی ہے۔ شناختی کارڈ کے مطابق 1978ء میں پیدا ہونے والے صادق سنجرانی کو 1998ء میں محض 20 سال کی عمر میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اپنا کوآرڈینیٹر کیسے مقرر کردیا۔ کوائف کے مطابق صادق سنجرانی نے 20 سال کی عمر میں کسی تعلیمی ادارے سے ایم اے کرلیا تھا۔ ایسا ممکن تو ہے لیکن کسی سرکاری ملازمت اور اہم عہدے کے لیے عمر کی کم سے کم حد 21 سال ہے۔ اس وقت نواز شریف بادشاہ بنے ہوئے تھے اور کسی نے اس کی نشاندہی بھی نہیں کی۔ اب یہ معاملات کھود کر نکالنے کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔ میاں نواز شریف اپنی شکست ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کے عادی نہیں۔ سینیٹ میں شکست کے بعد اب وہ پھر نئے سرے سے اپنے مخالفین پر برس پڑے ہیں۔ گزشتہ منگل کو چھوٹے بھائی نواز شریف کے ن لیگ کا صدر منتخب ہونے کے بعد نواز شریف نے نجانے کس دلیل کے تحت اسے اپنی فتح اور مخالفین کی شکست قرار دیا۔ اگر ایسا ہے تو انہیں جشن منانا چاہیے تھا مگر وہ تو پھر کوسنے دینے پر اتر آئے۔ فرمایا عمران خان منافق اور جھوٹا ہے۔ بلاول ہاؤس اور بنی گالہ چابی والے کھلونے ہیں۔ اسی دوران میں انہوں نے ایک عجیب جملہ کہاکہ ’’کوئٹہ کا کیا شخص تھا جس کے سامنے جھک گئے‘‘ غالباً وہ کہنا چاہتے تھے کہ کوئٹہ کا وہ کون سا شخص ہے۔ لیکن میاں صاحب نے وضاحت نہیں کی کہ وہ کون ہے جو کوئٹہ میں بیٹھا ہوا ہے اور ان کھلونوں میں چابی بھر رہا ہے۔ یہ بھی کہا جارہاہے کہ سینیٹروں کی وفاداریاں تبدیل کرانے میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ الیکشن کے دوران میں مشاہد اﷲ نے اپنے کندھوں کو ہاتھ لگاکر کہا تھا کہ بڑا دباؤ ہے ان کے کندھے تو بوجھ اٹھاکر تھک گئے ہوں گے۔ پہلے یہ خبریں بھی آتی رہی ہیں کہ ارکان اسمبلی کو پر اسرار ٹیلی فون وصول ہوتے ہیں۔بہر حال لگتا یہ ہے کہ مزید کوئی سیاسی گڑ بڑ ہونے والی ہے۔ اب یہ کہا جارہاہے کہ عام انتخابات کی تاریخ ٹل سکتی ہے اور اس سے پہلے عبوری حکومت کے معاملے پر بھی نئی محاذ آرائی تیار ہے۔ لیکن پہلے ضمیر فروشوں کی نشاندہی ضروری ہے۔