آدابِ زندگی

304

یوسف اصلاحی

-1 جب شام کا اندھیرا چھانے لگے تو بچوں کو گھر میں بلا لیجیے اور باہر نہ کھیلنے دیجیے۔ ہاں، جب رات کا کچھ حصہ گزر جائے تو نکلنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ احتیاط اسی میں ہے کہ کسی اشد ضرورت کے بغیر بچوں کو رات میں گھر سے نکلنے نہ دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
’’جب شام ہوجائے تو چھوٹے بچوں کو گھر میں روکے رکھو۔ اس لیے کہ اس وقت شیاطین (زمین میں) پھیل جاتے ہیں۔ البتہ جب گھڑی بھر رات گزر جائے تو بچوں کو چھوڑ سکتے ہو‘‘ (صحاح ستہ بحوالہ حصص حصین)
-2 جب شام ہوجائے تو یہ دُعا پڑھیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرامؓ کو یہی دُعا پڑھنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔
’’خدایا ہم نے تیری ہی توفیق سے شام کی اور تیری ہی مدد سے صبح کی۔ تیری ہی عنایت سے جی رہے ہیں اور تیرے ہی اشارے پر مرجائیں گے اور انجام کار تیرے ہی پاس اُٹھ کر حاضر ہوں گے‘‘۔ (ترمذی)
اور مغرب کی اذان کے وقت یہ دُعا پڑھیے۔
’’خدایا! یہ وقت ہے تیری رات کے آنے کا تیرے دن کے جانے کا اور تیرے مؤذّنوں کی پکار کا۔ پس تو میری مغفرت فرما دے!‘‘
-3 عشاء کی نماز پڑھنے سے پہلے سونے سے پرہیز کیجیے۔ اس طرح اکثر عشاء کی نماز خطرے میں پڑ جاتی ہے اور کیا خبر کہ نیند کی اس موت کے بعد خدا بندے کی جان واپس کرتا ہے یا پھر ہمیشہ کے لیے ہی لے لیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے گھر میں سونے سے پرہیز فرماتے جس میں روشنی نہ کی گئی ہوتی۔
-4 رات ہوتے ہی گھر میں روشنی ضرور کر لیجیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے گھر میں سونے سے پرہیز فرماتے جس میں روشنی نہ کی گئی ہوتی۔
-5 رات گئے تک جاگنے سے پرہیز کیجیے۔ شب میں جلد سونے اور سحر میں جلد اُٹھنے کی عادت ڈالیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’عشا کی نماز کے بعد یا تو ذکر الٰہی کے لئے جاگا جاسکتا ہے یا گھر والوں سے ضرورت کی بات کرنے کے لیے‘‘۔
-6 رات کو جاگنے اور دن میں نیند پوری کرنے سے پرہیز کیجیے۔ خدا نے رات کو آرام و سکون کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ اور دن کو سو کر اُٹھنے اور ضروریات کے لیے دوڑ دھوپ کرنے کا وقت قرار دیا ہے۔ سورئہ الفرقان (47) میں ہے۔
’’ اور وہ خدا ہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے پردہ پوش اور نیند کو راحت و سکون اور دن اُٹھ کھڑے ہونے کو بنایا‘‘۔
۶۔ اور سورئہ النبار میں ہے۔
ترجمہ: ’’اور ہم نے نیند کو تمہارے لیے سکون و آرام۔ رات کو پردہ پوش اور دن کو روزی کو دَوڑ دھوپ کا وقت بنایا‘‘۔
اور سورئہ النمل (86) میں ہے۔
ترجمہ: ’’کیا ان لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے (تاریک) رات بنائی کہ یہ اس میں آرام و سکون حاصل کریں اور دن کو روشن (کہ دوڑ دھوپ کریں) بلاشبہ اس میں مومنوں کے لیے سوچنے کے اشارات ہیں‘‘۔
رات کو تاریک اور سکون و آرام کا وقت بنانے اور دن کو دوڑ دھوپ اور محنت کے لیے روشن بنانے میں اشارہ یہ ہے کہ رات کو سونے کی پابندی کی جائے اور دن میں اپنی ضروریات کے لیے محنت اور کوشش کی جائے۔ دن کی روشنی میں اپنی معاش اور ضروریات کے لیے تن دہی اور سخت کوشی کے ساتھ لگے رہیے یہاں تک کہ آپ کے اعضا اور قوتیں تکان محسوس کرنے لگیں۔ اس وقت رات کی پُرسکون اور پردہ پوش فضا میں سکون و راحت سے ہم آغوش ہوجائیے اور دن طلوع ہوتے ہی پھر خدا کا نام لیتے ہوئے تازہ دم میدانِ عمل میں اُتر پڑئیے۔ جو لوگ آرام طلبی اور سُستی کی وجہ سے دن میں خراٹے لیتے ہیں یا دادِ عیش دینے اور لہو و لعب میں مبتلا ہونے کے لیے رات بھر جاگتے ہیں وہ قدرت کی حکمتوں کا خون کرتے ہیں اور اپنی صحت و زندگی کو برباد کرتے ہیں۔ دن میں پہروں تک سونے والے اپنے دن کے فرائض میں بھی کوتاہی کرتے ہیں اور جسم و جان کو بھی آرام سے محروم رکھتے ہیں اس لیے کہ دن کی نیند رات کا بدل نہیں بن پاتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس کو بھی پسند نہیں فرمایا کہ آدمی رات رات بھر جاگ کر خدا کی عبادت کرے اور اپنے کو ناقابل برداشت مشقت میں ڈالے۔
حضرت عبداللہ ابن عمرو سے ایک بار نبیؐ نے پوچھا۔ کیا یہ بات جو مجھے بتائی گئی ہے صحیح ہے: کہ تم پابندی سے دن میں روزے رکھتے ہو اور رات رات بھر نمازیں پڑھتے ہو؟ حضرت عبداللہ نے کہا۔ جی ہاں بات تو صحیح ہے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نہیں ایسا نہ کرو۔ کبھی روزہ رکھو اور کبھی کھائو پیو۔ اسی طرح سوئو بھی اور اُٹھ کر نماز بھی پڑھو۔ کیونکہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے۔ (بخاری)
-7 زیادہ آرام دہ بستر نہ استعمال کیجیے۔ دنیا میں مومن کو آرام طلبی، سہل انگاری اور عیش پسندی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ زندگانی مومن کے لیے جہاد ہے اور مومن کو جفاکش، سخت کوش، اور محنتی ہونا چاہیے۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی‘‘۔ (شمائل ترمذی)
حضرت حفصہؓ سے کسی نے پوچھا آپ کے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر کیسا تھا؟ فرمایا ایک ٹاٹ تھا جس کو دوہرا کرکے ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے بچھا دیا کرتے تھے۔ ایک روز مجھے خیال آیا کہ اگر اس کو چوہرا کرکے بچھا دیا جائے تو ذرا زیادہ نرم ہوجائے گا۔ چنانچہ میں نے اس کو چوہرا کرکے بچھا دیا۔ صبح کو آپؐ نے دریافت فرمایا۔ رات میرے نیچے کیا چیز بچھائی تھی۔ میں نے کہا، وہی ٹاٹ کا بستر تھا۔ البتہ رات میں نے اُس کو چوہرا کرکے بچھا دیا تھا کہ کچھ نرم ہوجائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نہیں اس کو دوہرا ہی رہنے دیا کرو۔ رات بستر کی نرمی تہجد کے لیے اُٹھنے میں رکاوٹ بنی‘‘۔ (شمائل ترمذی)
o حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک بار ایک انصاری خاتون آئیں اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر دیکھا۔ گھر جا کر اس خاتون نے ایک بستر تیار کیا۔ اس میں اون بھر کر خوب ملائم بنادیا۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھیجا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر تشریف لائے اور وہ نرم بستر رکھا ہوا دیکھا تو فرمایا یہ کیا ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ! فلاں انصاری خاتون آئی تھیں اور آپ کا بستر دیکھ گئی تھیں۔ اب یہ انہوں نے آپ کے لیے تیار کرکے بھیجا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ نہیں اس کو واپس کردو۔ مجھے وہ بستر بہت ہی پسند تھا اس لیے واپس کرنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا اصرار فرمایا کہ مجھے واپس کرنا ہی پڑا۔ (شمائل ترمذی)
o نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار ایک چٹائی پر سو رہے تھے۔ چٹائی پر لیٹنے سے آپ کے جسم پر چٹائی کے نشانات پڑ گئے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں۔ میں یہ دیکھ کر رونے لگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے روتے دیکھا تو فرمایا کیوں رو رہے ہو؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ قیصر و کسریٰ تو ریشم اور مخمل کے گدوں پر سوئیں اور آپ بوریے پر۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، یہ رونے کی بات نہیں ہے ان کے لیے دنیا ہے اور ہمارے لیے آخرت ہے۔
o ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’میں عیش و آرام اور بے فکری کی زندگی کیسے گزار سکتا ہوں، جب کہ حال یہ ہے کہ اسرافیل منہ میں صُور لیے کان لگائے (حکم بجالانے کے لیے) سر جھکائے انتظار کررہے ہیں کہ کب صُور پھونکنے کا حکم ہوتا ہے‘‘۔ (ترمذی)
نبیؐ کا یہ اُسوئہ مطالبہ کرتا ہے کہ مومن اس دُنیا میں مجاہدانہ زِندگی گزارے اور عیش کوشی سے پرہیز کرے۔