ہارس ٹریڈنگ کی تحقیقات

290

چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا نے سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے کہاہے کہ تحقیقات کے لیے خفیہ ایجنسیوں سے مدد لی جائے گی۔ ایوان بالا کے لیے ووٹوں کی خرید و فروخت انتہائی شرمناک ہے گو کہ یہ کام اسمبلیوں میں بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ جامع تحقیقات ہونی اور اس اونٹ کو کسی کروٹ بیٹھنا بھی چاہیے۔ مگر کیا خفیہ ایجنسیاں مدد فراہم کرسکیں گی؟ یہ شبہ اس لیے ہے کہ بعض سیاست دانوں نے شک ظاہر کیا ہے کہ اس تجارت میں مقتدر اداروں کا ہاتھ تھا۔ ن لیگ سے وابستہ سینیٹر مشاہد اﷲ خان نے ایک بار پھر کہاہے کہ لوگوں کو دھمکیاں دی گئیں چنانچہ شکست یقینی تھی۔ اس سے پہلے انہوں نے کہاتھا کہ لوگوں کے کندھوں پر بڑا بوجھ ہے۔ تازہ بیان میں انہوں نے کہاکہ ایک عرصے سے اس کی کوشش کی جارہی تھی اور پیسے کا بھی بے تحاشا استعمال ہوا۔ کوشش سے ان کی مراد یہ ہے کہ مقتدر حلقے ن لیگ کو شکست دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ پیپلزپارٹی نے رضا ربانی کو چھوڑ کر ایک ایسے شخص کو سینیٹر بنادیا جس کی کوئی شناخت نہیں ہے۔ یہ بڑا عجیب اعتراض ہے کیونکہ جب میاں نواز شریف کو وزیراعلیٰ پنجاب بنایا گیا تھا تو سیاست میں ان کی بھی کوئی شناخت نہیں تھی اور تھی تو محض اتفاق فونڈری کے حوالے سے۔ مگر جنرل ضیا الحق کی مہربانی ہے پہلے پنجاب کے وزیر خزانہ بنے اور پھر وزیراعلیٰ ۔ پیپلزپارٹی کے مخالف کی شناخت رکھنے کی وجہ سے انہیں بھی مقتدر قوتوں نے وزیراعظم بنادیا۔ چنانچہ یہ شکوہ تو بے جا ہے کہ نئے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی کوئی شناخت نہیں۔ یہ وہی تو ہیں جن کو 20 سال کی عمر میں خود میاں نواز شریف نے ایک شناخت دی۔ ان جیسے اور کتنے بے چہرہ اور بے شناخت لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنی شناخت بنائی۔ اگر سنجرانی کی کارکردگی اچھی رہی تو وہ بھی اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس قسم کے الزامات کو شکست کی جھنجھلاٹ سمجھا جائے گا۔ انتخابات میں گھوڑوں کی تجارت ایک عام بات ہے اور جو زیادہ گھوڑے خریدنے میں کامیاب ہوجاتا ہے وہ فاتح سمجھا جاتا ہے۔ مشاہد اﷲ سمیت ن لیگ کی پوری قیادت کا یہ کہنا بجا ہے کہ ایک دوسرے کو گالیاں دینے والے زرداری اور عمران خان نے سینیٹ چیئرمین کے لیے گٹھ جوڑ کرلیا۔ عمران خان کو یوٹرن لینے میں دیر نہیں لگتی لیکن کیا اسے آصف زرداری کی سیاسی کامیابی قرار نہیں دیا جائے گا۔ وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف ان سے سیاست سیکھیں۔ زرداری کی سیاست کو بھلے کچھ بھی کہیں لیکن انہوں نے نواز شریف کو ہرادیا۔ اس سے پہلے وہ بلوچستان میں حکومت تبدیل کرانے میں بھی کامیاب رہے۔ میاں صاحب ہوشیار ہوجائیں، وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اگلا صدر اور وزیراعظم پیپلزپارٹی کا جیالا ہوگا۔ رہے عمران خان، تو انہوں نے پیپلزپارٹی سے گٹھ جوڑ کرکے خود اپنی نفی کی ہے اور اپنی پارٹی کو نقصان پہنچایا ہے۔ شاید انہوں نے اپنی پیرانی اہلیہ کے مشورے سے یہ کام کیا ہو۔ اب خود ن لیگ نے بھی اپنی پارٹی اور اتحادیوں کے بک جانے والے گھوڑوں کی تحقیقات شروع کردی ہے اور راجا ظفر الحق کو ووٹ نہ دینے والوں کا سراغ لگانے کا کام انٹیلی جنس بیورو کے سپرد کردیا ہے۔ نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن سے شکوہ کیا ہے کہ ان کی پارٹی کے 3 سینیٹروں نے ہمیں ووٹ نہیں دیے۔ لیکن مولانا نے یہ الزام مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ تحقیقات کروالیں۔ ایک خبر کے مطابق صرف جے یو آئی کے سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے راجا ظفر الحق کو ووٹ دیا۔ مسلم لیگی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی میں مفاہمت کرانے والوں نے ن لیگ کے طرفدار 9 ارکان سے یقین دہانی حاصل کی تھی۔ یہ اشارے کس کی طرف ہیں، کوئی کھل کر نہیں کہے گا کہ یقین دہانی حاصل کرنے والے کون تھے گو کہ جانتے سب ہیں۔ عمران خان تو نواز شریف کے خلاف کسی سے بھی ہاتھ ملاسکتے ہیں اور زرداری نے اپنا مشن مکمل کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہارس ٹریڈنگ کی تحقیق کے لیے ایجنسیاں کس حد تک مدد کرسکیں گی۔ چیف الیکشن کمشنر کا کہناہے کہ سیاسی جماعتوں نے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن کیا سیاسی جماعتیں اعتراف کریں گی کہ ان کا کون کون سا سینیٹر فروخت ہوا اور کن شرائط پر۔ الیکشن کمشنر کا کہنا بجا ہے کہ ووٹ کی خرید و فروخت جرم ہے لیکن بد قسمتی سے بکنے اور خریدنے والے پارلیمنٹیرین ہیں۔ ملک میں جو کچھ بھی ہورہاہے اس پر قوم تو ناخوش ہے ہی لیکن کیا جیتنے والوں کا ضمیر بھی مطمئن ہوگا؟ اب سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا جوڑ پڑنے والا ہے۔ دیکھنا ہے کہ کیا ن لیگ ایسی ہی شکست سے دو چار ہوگی یا کچھ بہتری لاسکے گی۔ حیرت تو اس پر ہے کہ عددی اعتبار سے مسلم لیگ ن کو سینیٹ میں برتری حاصل ہے لیکن چیئرمین کے انتخاب کا نتیجہ کچھ اور نکلا ہے۔ خود ن لیگ کے ارکان ادھر سے ادھر ہوگئے اور وہ ایوان بالا کے معزز رکن ہیں۔