سینیٹر سراج الحق کے بعد مشتاق احمد خان کی سینیٹ میں آمد ہوئی ہے، دونوں میں کوئی رشتہ داری ہے اور نہ قرابت داری، مشترکہ کاروبار ہے اور نہ پیسے دے کر ٹکٹ خریدا اور بیچا گیا ہے، یہی خوبی جماعت اسلامی کو ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں سے ممتاز کرتی ہے۔ سینیٹ میں جماعت اسلامی کے نمائندے کی حیثیت سے قاضی حسین احمد، پروفیسر خورشید احمد اور پروفیسر غفور احمد ایسے زیرک رہنماء بھی اپنا کردار نبھا چکے ہیں، ڈاکٹر ساعد، ڈاکٹر مراد علی شاہ بھی سینیٹ کے رکن رہے ہیں ان سب کے دامن داغ سے محفوظ رہے، ایسا اس لیے ہوا کہ جماعت اسلامی میں داخلی احتساب کا عمل مضبوط اور ایک مسلسل عمل ہے۔ سراج الحق اور مشتاق احمد خان کا تعلق چوں کہ کے پی کے سے ہے لہٰذا اصولی طور انہیں اپنے صوبے کے عوام کے مسائل کا حل بھی پیش کرنا ہے لیکن قومی مفاد بھی مقدم رکھنا ان کی پہلی اور اولین ترجیح ہے اور رہے گی، کے پی کے میں غربت، بے روزگاری، بجلی کے خالص منافع اور تعلیمی اور صحت عامہ کی سہولتوں کا فقدان بڑے ہیں۔ بلاشبہ سینیٹ پارلیمنٹ کا بالاتر فورم ہے، جہاں چاروں صوبوں کی مساوی نمائندگی ہے سینیٹ کی توثیق کے بغیر کوئی قانون اور آئین میں ترمیم نہیں ہوسکتی اس لحاظ سے جتنا یہ اہم فورم ہے اسی قدر یہاں ہونے والی قانون سازی کے عمل میں شریک رہنا بھی اہم ہے لیکن بعض اوقات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ فورم ایک میونسپل کمیٹی ہے تاہم ایسا ہرگز نہیں ہے، قانون سازی کا معیار جتنا بلند ہوگا اسی درجے یہ فورم ملک اور قوم کی فلاح، بہبود، ترقی اور خوشحالی کے لیے اجلا کردار پیش کرسکے گا۔
کبھی کبھی اس ایوان کے لیے سیاسی جماعتوں کی جانب سے جاری ٹکٹ کا جب جائزہ لیا جاتا ہے تو کسی حد تک مایوسی بھی ہوتی ہے کہ پارلیمنٹ کے اعلیٰ ترین اور بالاتر ایوان میں نمائندگی کے لیے سیاسی جماعتوں میں قحط الرجال کیوں ہے زمانہ ہوا اس ایوان میں کبھی ایک خاندان کے افراد منتخب ہوکر لازمی آیا کرتے تھے وجہ پیسے کی ریل پیل تھی لیکن دو بار ایسا ہوا کہ گلزار خان فیملی کے لوگ اس ایوان میں نہیں پہنچ سکے ماضی میں تو اسی ایک خاندان کے چار افراد ایوان کے رکن تھے، ہمارے ملک کا سیاسی نظام کچھ ایسا بن گیا ہے کہ سیاست اب پیسے کا کھیل سمجھا جاتا ہے، بلدیاتی کونسلر کے انتخاب میں لاکھوں خرچ ہوجاتے ہیں بعض اوقات رقم کروڑوں میں پہنچ جاتی ہے، یہی حال قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخاب کے وقت ہوتا ہے، سینیٹ بھی اس سے محفوظ نہیں رہا، ایسا کیوں ہے؟ جو لوگ پیسے کی بنیاد پر ایوان میں آتے ہیں ان کی اگلی منزل ایوان کی قائمہ کمیٹی کی چیئرمین شپ ہوتی ہے یا امور داخلہ اور این ایچ اے جیسی قیمتی قائمہ کمیٹی، چھ سال گزار کر اس ایوان سے رخصت ہونے والے بیش تر سینیٹرز الوداعی خطاب کے وقت آبدیدہ ہوئے،سبک دوش چیئرمین رضا ربانی نے بھی خطاب کیا، اور کہا کہ پارلیمنٹ بالاتر ہے لیکن پارلیمان نے خود اپنی جگہ دی ہے، جب آپ اپنی جگہ دیں گے تو کوئی اور آپ کی جگہ پر آجائے گا، آج جس مقام پر ہوں، دو خواتین کی بدولت ایک والدہ اور دوسری سیاسی ماں بینظیر بھٹو ہیں، جب پارلیمان کو برخاست، معطل کیا گیا پھر جب پارلیمان کو دوبارہ چلایا گیا تو ہم نے سب کچھ قبول کیا، سب قوانین آپ نے منظور کیے اور ایک اچھے بچے کی طرح ہر چیز مانتے چلے گئے۔ اٹھارویں ترمیم کے اندر 277/AA کے تحت مشرف دور کا کوئی قانون پارلیمان نے منظور نہیں کیا، میں اس پارلیمان کو سلام پیش کرتا ہوں، ہم نے قانونی سقم بھی رکھے، روزانہ کی بنیاد پر کام بھی کیے تاکہ ابہام پیدا نہ ہوں، ایگزیکٹو کو آرڈیننس کے ذریعے چلایا گیا، اعلیٰ عدلیہ کی ہدایات آئیں لیکن پارلیمان خاموش رہا، آرڈیننس آتا تھا ہم بل کے ذریعے پاس کرتے رہے ہیں، آج پارلیمان کی بالادستی کی بات کی جاتی ہے تو یہ لازم ہے آرٹیکل 89 کو ختم کیا جائے، آرڈیننس جاری کیا جائے کہ اب تمام قانون سازی پارلیمنٹ کے ذریعے ہوگی منصب آنے جانے ہوتے ہیں، آخر میں آدمی کا کردار اور اس کے اصول رہ جاتے ہیں، آئین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا، پارلیمان کی بالادستی ہونی چاہیے اور ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے جو پارلیمنٹ، عدلیہ اور ایگزیکٹو کی درست آئینی سمت سے متعلق ہے، اداروں کے درمیان ڈائیلاگ کی اشد ضرورت ہے، سینیٹ کے درو دیوار گواہ ہیں کہ یہی سینیٹر ہاتھ کھڑا کرنے کی مشین کی طرح اپنی اپنی جماعت کے حق میں ووٹ دیتے رہے۔
آرٹیکل 172کے مطابق معدنیات، گیس کا وفاق او ر صوبوں کو مساوی حصہ ہو، مشترکہ مفادات کونسل کا سیکرٹریٹ قائم کیا جائے، کونسل کے فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے سینیٹ کو نگران بنایا جائے،آئین میں اکیسویں ترمیم ہوئی تو سینیٹ میں رضا ربانی نے کھل کر اظہار خیال کیا اور رائے شماری کے وقت اس کے حق میں ووٹ دیا، اسی سینیٹ میں آرمی چیف، چیف جسٹس اور قانونی ماہرین خطاب کرچکے ہیں، ایسا ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا، جب سینئر قانون دان خطاب کے لیے آئے تھے تو بیش تر سینیٹرز نے قانون سازی کا عمل شفاف بنانے کے حق میں اظہار خیال بھی کیا اور پینل سے سوالات بھی کیے، سینیٹر ایس ایم ظفر نے ان تمام سوالوں کے جواب میں ایک ہی بات کہی کہ ’’اپنی جماعت کی قیادت کے سامنے بھی کچھ کلمہ حق کہا کریں، ماضی میں سینیٹ کے ایوان کے سامنے بھی مسائل تھے اس بار بھی ہوں گے، سینیٹ کو انتخابی کرپشن کے بارے میں ضرور کوئی لائحح عمل دینا ہوگا، اس کے سامنے دوسرا اہم موضوع فاٹا کی صوبہ کے پی کے میں ادغام یا الگ صوبہ کی حیثیت کا معاملہ بھی اٹھے گا، این ایف سی ایوارڈ اور صوبوں کو منتقل ہونے والی وزارتوں کا بھی معاملہ اہم ہے، بیش تر وزارتوں کے ملازمین بے چارے درمیان میں لٹک رہے ہیں، بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی مسئلہ ہے اور بجلی کی چوری اس سے بڑا مسئلہ ہے کے پی کے میں تیل اور گیس کے ذخائر ہیں مگر یہاں کے نوجوان بے روزگار ہیں تمباکو کا کاروبار کے پی کے میں ایک بڑا کاروبار سمجھا جاتا ہے اس کے اپنے مسائل ہیں، پھر ایک اور پہلو توجہ طلب ہے کہ بیرون ملک جیلوں میں پاکستانی قید ہیں، ان کی قانونی مدد کے لیے سینیٹ کو آگے بڑھنا ہوگا۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملک میں دس ہزار میگاواٹ بجلی کے منصوبے تیار ہو چکے ہیں لیکن لوڈ شیڈنگ ہے کہ ختم ہی نہیں ہورہی، کہا جاتا ہے جہاں بجلی چوری ہوگی وہاں لوڈ شیڈنگ بھی ہوگی سینیٹ کو اس معاملے کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا فیصلہ یہ ہوا ہے کہ جہاں چھ فے صد بجلی چوری ہورہی ہے ان فیڈر پر لوڈشیڈنگ ہوگی کیا سینیٹ کا یہ ایوان جس کے انتخاب میں ٹریڈنگ ہوئی کروڑوں کی بولی لگی بریف کیسوں اور پیسوں کی چمک نے کام دکھایا وہ سینیٹ میں اسلام، پاکستان اور عوام کا مقدمہ کتنی مضبوطی کے ساتھ لڑ سکے گی سینیٹ الیکشن میں منڈی لگی تھی اور ٹماٹروں کی طرح ارکان اسمبلی کی خریدو فروخت ہوئی یہ سینیٹ کشمیر، برما، شام، افغانستان اور فلسطین کا مقدمہ کس طرح لڑے گی، چکی میں پسنے والے مظلوم عوام کسی نجات دہندہ کی تلاش میں ہیں یہ نجات دہندہ کون بنے گا۔