دودھ کی قیمت لازمی بڑھے گی

207

یہ کوئی راز نہیں کہ پاکستان کی کوئی بھی حکومت اشیائے ضرورت کی قیمتوں پر کنٹرول کرنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے چنانچہ کوئی تعجب نہیں اگر کراچی میں دودھ فروش قابو میں نہیں آرہے۔ دودھ اب تک 85 روپے لیٹر فروخت ہورہا تھا اور جب ڈیری فارم والوں اور تھوک فروشوں نے قیمت بڑھانے کا مطالبہ کیا اور کمشنر صاحب سے مذاکرات شروع ہوئے، اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ دودھ کی قیمت تو بڑھ کر رہے گی۔ بس یہ انتظار تھا کہ دیکھیں بات کہاں پر جاکر رکتی ہے۔ اور یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا۔ حکومت سے مذاکرات کے نتیجے میں دودھ کی قیمتیں ہر بار بڑھتی ہی چلی گئیں۔ ہوتا یہ ہے کہ جب کوئی مافیا کسی چیز کی قیمت میں، مثال کے طور پر 20 روپے بڑھانے کا مطالبہ کرتی ہے تو سرکار 10 روپے پر راضی ہوجاتی ہے اور عوام کے سامنے سینہ چوڑا کرکے کہاجاتا ہے کہ دیکھیے، ہم نے مطالبہ نہیں مانا، ہمیں عوام کے مفادات کا بڑا احساس ہے، اب بھی کچھ ایسا ہی ہوگا۔ اس وقت کراچی کے کئی مقامات پر 85 روپے لیٹر والا دودھ 100 روپے تک بک رہا ہے۔ انتظامیہ 95 روپے پر راضی ہوجائے گی۔ کمشنر کراچی اور ڈیری فارمرز میں جس نرخ پر اتفاق ہوا ہے وہ ڈیری والوں کے لیے 74 روپے 50 پیسے سے بڑھاکر 86 روپے کردیاگیا ہے۔ اب یہ دودھ جب خردہ فروشوں اور عام دکانداروں تک پہنچے گا تو وہ 86 روپے پر اپنا منافع بھی رکھیں گے اور یہ قیمت کم از کم 95 روپے تک پہنچے گی۔ فی الوقت تو تھوک فروشوں اور دکانداروں نے ہڑتال کردی ہے اور کراچی کے کئی علاقوں میں جمعرات کو دکانیں بند رہیں اور اگلے دن بھی ہڑتال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق خریدار نہ ہونے کی وجہ سے 40 فی صد دودھ خراب ہوگیا۔ لیکن دودھ ایک ایسی شے ہے جس کی فروخت نہ ہونے پر دہی جمالیا جاتا ہے اور پھر اس سے گھی اور مکھن بھی نکالا جاتا ہے۔ اس کے ضائع ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی یقینی نہیں ہوتا کہ جو دودھ استعمال کیا جارہاہے وہ کتنا خالص ہے۔ پانی کی ملاوٹ تو عام ہے لیکن دودھ میں ایسے کیمیکل ملانے کی اطلاعات بھی ہیں جو سخت مضر ہیں۔ پنجاب میں تو متعدد چھاپے مار کر دودھ ضائع کیا گیا ہے کراچی یا سندھ میں ایسی کوئی کارروا ئی نہیں ہوئی۔ ڈبا بند یا ٹیٹرا بیک دودھ تیار کرنے والی کمپنیاں تو مراعات یافتہ طبقات ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے کچھ کمپنیوں کو بند کرنے، بعد ازاں انہیں کھولنے کے احکامات تو جاری کیے ہیں۔ اب کراچی میں دودھ کی ہڑتال کا فائدہ ڈبا بند دودھ کمپنیاں اٹھائیں گی جن کے دودھ کے نرخ پہلے ہی تازہ دودھ کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ بہر حال دیکھنا ہے کہ دودھ فروشوں اور انتظامیہ میں کیا معاملات طے پاتے ہیں۔ ایسا ہی طریقہ واردات ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے کے حوالے سے کئی بار دیکھنے میں آیا ہے۔ مطالبہ بڑھا چڑھاکر کیا جاتا ہے اور اس سے کم اضافے پر سودا طے پاجاتا ہے جیسے ہوشیار دکاندار اپنی چیز کی قیمت اس لیے بڑھا چڑھاکر بتاتا ہے کہ گاہک کم تو ضرور کروائے گا۔ کم کرنے پر گاہک اپنی کامیابی پر خوش اور دکاندار اپنے ہتھکنڈے پر خوش کہ منافع کم نہیں ہوا۔