پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ

325

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھتی جارہی ہے اور نظر انصاف سے دیکھا جائے تو یہ یکطرفہ ہے۔ کنٹرول لائن پر بھارت ایک عرصے سے بلا اشتعال فائرنگ کررہاہے جس سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ کشمیر کی سرحد پر آباد لوگوں میں خوف و ہراس ہے اور متعدد لوگ اپنے کھیت اور مکان چھوڑ کر محفوظ علاقوں کی طرف نکل گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مبصرین کو اگر نظر آئے تو دیکھیں کہ کنٹرول لائن پر کتنے ہی اسکول اور مکانات بھارتی گولیوں سے چھلنی ہیں۔ بھارتی فوج کی جرأت اتنی بڑھ گئی ہے کہ گزشتہ دنوں عالمی مبصرین کے گشت کے دوران میں بھی فائرنگ جاری رہی۔ اب کچھ عرصے سے بھارت نے یہ وتیرہ اختیار کیا ہوا ہے کہ دہلی میں متعین پاکستانی سفارتکاروں کو ہراساں کیا جارہاہے۔ انہیں سڑکوں پر روک لیا جاتا ہے، ان کی وڈیوز بنائی جاتی ہیں اور سفارتکاروں کے بچوں تک کو پریشان کیا جارہاہے۔ خوئے بدرا بہانہ بسیار کے مصداق ہر طرح کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان سے کشیدگی بڑھائی جائے۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ بھارت کسی اور کے کھونٹے پر اچھل رہا ہے اور طرح طرح سے پاکستان کو اپنے دباؤ میں لانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اس نے اب امریکا پر تکیہ کر رکھا ہے لیکن کیا اسے اندازہ نہیں کہ امریکا کسی کا نہیں، وہ صرف اپنے مفادات کا غلام ہے۔ پڑوسیوں سے اگر اچھے تعلقات نہیں تو کشیدگی سے پاک معمول کے تعلقات تو قائم رکھے جاسکتے ہیں۔ بات صرف پاکستان کی نہیں، بھارت کا ہر پڑوسی اس سے نالاں ہے۔ بھارتی فوج کے سالار دھمکی دے رہے ہیں کہ ہم چین اور پاکستان سے بیک وقت لڑسکتے ہیں۔چین سے 1962ء کی جنگ میں شکست بھارت کو بھولی تو نہیں ہوگی اور پاکستان بھی ایک ایٹمی طاقت ہے۔ ایٹمی ممالک میں کبھی جنگ ہوئی تو نہیں اور اگر کبھی اس کی نوبت آئی تو ایسے دونوں ممالک ناقابل بیان تباہی سے دو چار ہوں گے۔ پاکستان ہی نہیں چین بھی بڑی ایٹمی طاقت ہے اور اس کی فوج بھارت سے کئی گنا بڑی ہے۔ دہلی میں پاکستانی سفارتکاروں کو مسلسل ہراساں کرنے کی وجہ سے پاکستان نے اپنے ہائی کمشنر (سفیر) کو واپس بلوالیا ہے۔ ان سے صورتحال پر تبادلہ خیال ہوگا۔ بھارت نے بھی مشورے کے نام پر پاکستان سے اپنے سفیر کو واپس بلانے کا عندیہ دیا ہے۔ لیکن اس سے بہتر ہوتا کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آجاتا۔ پاکستان کی طرف سے احتجاج پر اس نے کوئی سدباب نہیں کیا۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہناہے کہ ہراساں کرنے کے واقعات تسلسل سے پیش آرہے ہیں، اپنے سفارتکاروں کا تحفظ اہم ہے، اس معاملے کو ہلکا نہیں لیا جاسکتا۔ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ہر حد تک جائیں گے۔ ترجمان نے بتایا کہ پاکستان یہ مسئلہ عالمی اداروں میں پیش کرے گا۔ بھارت پاکستانی سفارتکاروں کو سیکورٹی فراہم نہیں کرنا چاہتا۔ پاکستان میں بھارتی سفارتکاروں کو پریشان کرنے کا کوئی واقعہ نہیں ہوا بلکہ ان کی بڑی آؤ بھگت کی جاتی ہے۔ ترجمان کا کہناتھا کہ اگر پاکستان میں ایسا کوئی واقعہ ہوا ہو تو بتایا جائے۔ پاکستان میں تو سفارتکار ہی کیا وہاں سے آنے والے ادیبوں اور شاعروں کا بھی پرجوش استقبال کیا جاتا ہے، ان کا بھی جو پاکستانی سرزمین پر کھڑے ہوکر تقسیم پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔ بھارت میں کوئی فلمی اداکار مرجائے تو اس کا سوگ پاکستان میں منایاجاتا ہے لیکن بھارت میں پاکستانی اداکاروں اورگلوکاروں تک کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ پاکستانی ترجمان نے کہاہے کہ بھارت اپنے سیاسی معاملات میں پاکستان کو ملوث نہ کرے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ بھارت میں جب بھی ریاستی یا مرکزی انتخابات ہونے لگتے ہیں تو پاکستان کو زد پر لے لیا جاتا ہے، بھارتی سیاست دانوں کو گمان ہے کہ جو بھی پاکستان کو برا بھلا کہے گا، اس کے خلاف جتنی زیادہ ہرزہ سرائی کرے گا، اپنے ملک میں اتنی ہی مقبولیت حاصل کرے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کو کوسنا کامیابی کی ضمانت سمجھ لیا گیا ہے۔ اور اب تو بھارت کے مسلمان شہریوں کے بارے میں بھی یہی نسخہ آزمایا جارہاہے۔ سیاسی کامیابی کے لیے بھارتی مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اظہار کامیابی کا گر سمجھا جاتا ہے۔ نفرت اور تعصب کے اس گھناؤنے ماحول میں بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے خود وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اپنی ریاست گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کرواکر اپنا قد اونچا کیا اور مرکزتک پہنچ گئے۔ پاکستانی ترجمان نے بہت صحیح کہاکہ پاکستانی سفارتکاروں کا تحفظ بہت اہم ہے لیکن پاکستان سے باہر روزی کمانے والے بھی پاکستانی سفیر کہلاتے ہیں مگر برسوں جیلوں میں پڑے سڑتے رہتے ہیں، کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ ان کے تحفظ کی فکر بھی کیجیے۔