عدم برداشت کا کلچر 

317

ہمارے ہاں عدم برداشت کے جو مظاہر مختلف واقعات کی صورت میں نظر آرہے ہیں وہ انتہائی پریشان کن ہیں۔ نو گیارہ کے بعد امریکا کی جانب سے افغانستان اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجھانے کے خلاف امت مسلمہ میں بالعموم اور پاکستانی نوجوانوں میں جو ردعمل سامنے آیا اسے مغرب نے مذہبی شدت پسندی جب کہ پاکستانی اہل دانش نے عدم برداشت اور سماجی ردعمل کا نا م دیا۔ یہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ ہم بحیثیت قوم ہمیشہ جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ ہم زندگی کے جملہ معاملات میں عقل اور فہم وفراست سے کم جب کہ جذبات سے زیادہ کام لیتے ہیں۔ نہ تویہ مو قع ہے اور نہ ہی ان محدود کالموں میں وہ واقعات اور شواہد بیان کرنے کی گنجائش ہے جو چیخ چیخ کر ہمارے اس منفی کردار کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ہمارے جذباتی پن کی اس سے بڑی مثالیں اور کیا ہو سکتی ہیں کہ ہمارے آباء و اجداد نے بے پناہ قربانیاں دے کر تمام تر نامساعد حالات کے باوجود قیام پاکستان کے ناممکن کام کو ممکن بنایا لیکن ہم اس ملک کو 24سال تک بھی متحد اور سنبھال کر نہیں رکھ سکے اور نتیجتاً ہم آدھا ملک گنوا بیٹھے۔ ہم ایک ایسی جذباتی قوم ہیں جو ایک جانب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں اور دوسری طرف فوجی آمروں کو نجات دہندہ قرار دے کران کا اتباع کرنے میں نہ تو کوئی عار محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی تعریفوں اور ان کے گن گانے میں زمین آسمان کے قلابے ملانے میں کوئی ندامت محسوس کرتے ہیں۔
آمریت اور جمہوریت کے درمیان پینڈولم بنی اس قوم کی بظاہر کوئی کَل سیدھی نہیں۔ ایسے میں جب ہمارے اردگرد نوجوان اپنے ساتھ بم باندھ کر اپنی جان سمیت سب کچھ بھسم کرنے پر تلے نظر آتے ہیں تو ان کے اس انتہا پسندانہ کردار اور عمل کو مذہبی شدت پسندی اور اسلامی بنیاد پرستی کے مکروہ عنوانات سے یاد کیا جاتا ہے حالاں کہ دہشت گردی یا تخریب کاری سے مذہبی طبقات کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا لیکن معاشرے میں چوں کہ باہمی ربط اور ایک دوسرے کے دکھ درد اور غم خوشی میں شرکت کے پیمانے بدل چکے ہیں اس لیے ہمارا ہر گزرتا ہوا دن پہلے سے زیادہ خسارے کاشکار نظر آتا ہے۔ معاشرے میں خودکش دھماکوں سے لیکر آئے روز رونما ہونے والے انفرادی واقعات واضح الفاظ میں ہماری اجتماعی بے حسی کے نمایاں مظاہر ہیں۔ ہمارے ہاں اب تک شدت پسندی کے الزامات عموماً مذہبی عناصر اور دینی مراکز کے خلاف مغرب سے مرعوب ہوکر بطور پروپیگنڈا استعمال کیے جاتے رہے ہیں حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہماری اجتماعی بے حسی کا نتیجہ ہے۔
صدر پاکستان ممنون حسین نے اس صورت حال پرخیال آرائی کرتے ہوئے بجا طور جو نقطہ اٹھایا ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے رویوں اور کردار و عمل کے ذریعے عدم برداشت اور تشدد کا جو بیج بو رہے ہیں اس کا نتیجہ ہمارے حق میں اچھا نہیں آئے گا بلکہ یہ وہ کانٹے ہیں جو ہمارے دامن کو تار تار کر کے رکھ دیں گی۔ قصور کی سات سالہ معصو م زینب اور مردان کی چار سالہ عاصمہ سے لیکر کوہاٹ کی میڈیکل کی طالبہ عاصمہ رانی کے بہیمانہ قتل تک نہ جانے ایسے کتنے واقعات ہمارے اردگرد بکھرے پڑے ہیں جو ہمارے معاشرتی زوال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ سماجی رویوں میں شدت اور عدم برداشت کا جو نیا کلچر ہمیں اپنی سیاست میں میاں نواز شریف، عمران خان اور خواجہ آصف پر پھینکے جانے والے جوتوں اور سیاہی کی صورت میں نفوذ پزیر ہوتا نظر آ رہا ہے وہ نہ صرف انتہائی خطرناک ہے بلکہ اگر اس منفی کلچر کا راستہ بروقت نہ روکا گیا تو اس سے ہمارے ہاں پہلے سے مفقود سیاسی عدم برداشت کے پہلو کو مذید داغ دار ہونے سے کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔ عدم برداشت کی یہ کانٹوں بھری فصل ہم جہاں سانحہ مشرقی پاکستان کی صورت میں کاٹ چکے ہیں وہاں کراچی اور بلوچستان کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر اس عفریت کے ہاتھوں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے انہیں ہمارے محفوظ اور بہتر مستقبل کے لیے نیک شگون ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاست میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے کلچر کو بعض لوگ جس طرح مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی جانب سے معزز عدلیہ اور مقتدر اداروں پر کی جانے والی جارحانہ اور غیر حکیمانہ تنقید سے جوڑنے پر بضد ہیں وہ یہ تنقید کرتے ہوئے اگر تصویر کے دونوں رخ ملحوظ خاطر رکھیں گے تو شاید پھر انہیں صورت حال کا بہتر اور متوازن تجزیہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ اگر بالفرض ان عناصر کی بات کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو تب بھی ہمارے بہتر اور محفوظ مستقبل کے لیے برداشت ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے دلوں کو مسخر کیا جا سکتا ہے۔