مشکلات میں گھری پاکستانی معیشت

384

پاکستانی معیشت کی کشتی کو جناب اسحاق ڈار اندرونی اور بیرونی قرضوں کی مدد سے کسی نہ کسی طرح چار سال چلاتے رہے اور بالآخر ملک سے فرار ہوگئے اب جب کہ حکومت کے لیے تین چار ماہ رہ گئے ہیں اس کشتی کو کنارے لانے کے لیے سرکاری مشنری ہاتھ پاؤں مار رہی ہے لیکن اُن طوفانوں اور آندھیوں کا سامنا ہے کہ پورے ملک میں معیشت کے بارے میں طرح طرح کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ پہلی مشکل تو یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے پاس زرِمبادلہ کے ذخائر صرف 12.5 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جب کہ جون 2018ء تک مختلف بیرونی ادائیگیوں کے لیے 17 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں اور ان کو تیل فراہم کرنے والی کمپنیوں کا گردشی قرضہ ایک کھرب روپے سے آگے جاچکا ہے اور کسی بھی وقت ایک بحران جنم لے سکتا ہے۔ تیسرے یہ کہ سال 2017-18ء کے گزشتہ سات ماہ میں حکومت نے 947 ارب روپے کا قرضہ لیا ہے اور مجموعی ملکی قرضہ 15.79 کھرب روپے ہوگیا ہے۔ مزید یہ کہ ملکی برآمدات میں گزشتہ آٹھ ماہ میں 11 فی صد اضافہ ہوا ہے جب کہ درآمدات میں تعمیراتی سامان، مشنری اور خام مال کی درآمد کی وجہ سے 20 فی صد اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اب تک 9 ارب ڈالر کا ہے جو جون 2018ء تک 15 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکسوں کی وصولی میں کمی اور سرکاری اخراجات میں اضافے کے باعث مالیاتی خسارہ (Fiscal defiet) بہت بڑھ چکا ہے جس پر آئی ایم ایف نے حکومت کو مالیاتی ڈسپلن کا مشورہ دیا ہے۔
یہ وہ مختلف مسائل ہیں جن سے پاکستانی معیشت اس وقت دوچار ہے، مثبت پہلو اس میں صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ مجموعی قومی پیداوار (GDP) کی شرح نمو سال 2017-18ء میں 5.6 فی صد متوقع ہے جو گزشتہ سات آٹھ سال میں سب سے زیادہ ہے جو سی پیک کے منصوبوں، بجلی کی بہتر سپلائی اور دہشت گردی میں کمی کے باعث ہے۔ معیشت کی صورت حال اس وجہ سے اور زیادہ دگرگوں ہوجاتی ہے کہ موجودہ حکومت تین سے چار ماہ میں ختم ہوجائے گی۔ اس کے بعد پاکستان کا پورا انتظام بشمول معیشت ایک نگراں حکومت کے ہاتھ میں ہوگا۔ آئینی طور پر نگران حکومت تین ماہ میں انتخابات منعقد کراکر اور کامیاب ہونے والی پارٹی کو حکومت حوالے کرکے رخصت ہوجائے گی۔ وہ آنے والی حکومت ایک مضبوط حکومت ہوگی یا اتحادی جماعتوں کی حکومت ہوگی اسے معاملات سمجھنے میں کچھ نہ کچھ وقت چاہیے جب کہ پاکستانی معیشت جلد فیصلوں کی متقاضی ہے۔ اس منظر کو اگر آپ آنکھوں کے سامنے لائیں تو کانوں میں خطرات کی گھنٹیاں بجنے لگتیں ہیں۔
مندرجہ بالا مسائل اور مشکلات سے نمٹنے کے لیے حکومت مختلف متبادل پر غور کررہی ہے۔ مثلاً زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے پہلے حکومت انٹرنیشنل بانڈ کے اجرا کا سوچ رہی تھی لیکن فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کے فیصلے کے بعد حکومت نے اس کا ارادہ ترک کردیا، اس کے بجائے اب چینی کرنسی یوآن میں بانڈ کے اجرا کا سوچا جارہا ہے اس سے اندازہ ہے کہ پاکستان کو چینی درآمدات کی ادائیگی میں آسانی ہوجائے گی۔ اس طرح گردشی قرضوں سے کسی حد تک چھٹکارا پانے کے لیے بجلی کے نرخوں میں 1.55 روپے فی یونٹ اضافہ کی تجویز ہے۔ مثلاً اس پر عمل آسان نہیں کیوں کہ بجلی کی کمپنیوں کی نااہلی اور ناقص کارکردگی کے باعث ان نقصانات اور قرضوں میں اضافہ ہوا لیکن اس کی سزا اُن ذمے دار اور ایماندار صارفین کو نہیں دی جاسکتی جو بجلی کا بل باقاعدگی سے ادا کررہے ہیں۔ اسی لیے لاہور ہائی کورٹ اس کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے جب کہ عدالت عظمیٰ نے اس پر حکم امتناع دیا ہوا ہے۔
الیکشن کا سال ہونے کی وجہ سے تمام ہی سیاسی حکومتیں ترقیاتی کاموں میں اضافہ کردیتی ہیں اس طرح اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہوجاتا ہے اور مالی خسارہ بڑھ جاتا ہے جب کہ آئی ایم ایف ملکی معیشت پر ایک جائزہ رپورٹ تیار کرچکی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس رپورٹ میں حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ اخراجات میں کمی اور ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں ایف بی آر کے پاس ایک ہی نسخہ ہے کہ وہ مختلف اشیا اور خدمات پر طرح طرح کے ٹیکس اور ڈیوٹیز نافذ کردیتا ہے جب کہ معیشت کے وہ شعبے جو ٹیکس نہیں دے رہے یا کم ٹیکس دے رہے ہیں اُن کے لیے وہ کوئی منصوبہ نہیں بناتا ہے۔ ٹیکسوں کی بہتات کی وجہ سے پاکستانی مصنوعات کی پیداواری لاگت پہلے ہی بہت زیادہ ہے، نئے ٹیکس لگانے سے معیشت کا سائز اور سکڑ جائے گا۔
حکومت کی جانب سے مزید ایک اقدام اوورسیز پاکستانیوں کے اثاثوں کے لیے ایمنسٹی اسکیم کے اجرا کی تجویز ہے۔ لیکن ایسی اسکیموں کے نتائج مختلف ممالک میں ایک جیسے نہیں رہے۔ کہیں اس اسکیم سے ملکی معیشت کو بہت فائدہ ہوا جب کہ بعض ممالک میں نتائج بہت حوصلہ افزا نہیں رہے۔ دیکھتے ہیں معیشت کی کشتی آنے والے دنوں میں کس سمت میں جاتی ہے۔