لوٹ کے مال پر جھگڑا 

318

گزشتہ جمعہ کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران میں ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کے مسئلے پر ہنگامہ ہوگیا۔ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ ان کے حلقوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ نفیسہ شاہ نے کہا کہ 80فیصد فنڈز ن لیگی ارکان کے حلقوں کو دیے جارہے ہیں، کیا یہ ہارس ٹریڈنگ نہیں؟ پارلیمانی سیکرٹری نے دعویٰ کیا کہ ہر حلقے کو فنڈ مل رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں یہ ہنگامہ آرائی کسی ملکی یا عوامی مسئلے پر نہیں تھی بلکہ سارا جھگڑا پیسے کی تقسیم پر تھا۔ اور پیسہ بھی کون سا، وہ جو عوام کی جیب سے نکالا جاتا ہے اور آپس میں بانٹ لیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہنگامہ اس پر تھا کہ کسی کو کم ملا اور کسی کو زیادہ۔ قومی اسمبلی میں عموماً یہی ہوتا ہے اور دوسری طرف جب مراعات کا معاملہ آتا ہے تو سب ایک ہو جاتے ہیں۔ ارکان اسمبلی کے لیے بہت کچھ مفت ہے اور مراعات اتنی زیادہ ہیں کہ انہیں تنخواہ کی ضرورت ہی نہیں۔ لیکن یہ فنڈز اپنے اپنے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے دیے جاتے ہیں مگر ایسی کئی خبریں آچکی ہیں کہ ارکان اسمبلی نے فنڈز کا صحیح استعمال نہیں کیا اور جو کیا وہ حلقے کی بہبود کے لیے نہیں بلکہ اپنے ووٹ پکے کرنے کے لیے۔ 13مارچ ہی کو چیف جسٹس پاکستان نے کہا تھا کہ ارکان پارلیمان کو فنڈز کی بندر بانٹ کیا الیکشن سے پہلے دھاندلی کے زمرے میں نہیں آتی۔ جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ یہ بات سامنے آرہی ہے کہ حکومت انتخابات سے پہلے ارکان کو فنڈز جاری کررہی ہے، یہ کس قانون کے تحت دیے جارہے ہیں؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سرکاری فنڈز کو ارکان اسمبلی کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ یہ سرکاری فنڈز حکمرانوں کی جیب سے نہیں نکلتے۔ عام انتخابات سرپر ہیں ایسے موقع پر فنڈز دینے کا مطلب قبل از الیکشن دھاندلی کی ایک قسم ہے۔ موجودہ حکومت اور ارکان قومی اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں بمشکل دو، تین ماہ رہ گئے ہیں۔ اس عرصے میں یہ فنڈز کہاں خرچ ہوں گے۔ اس وقت تو ضرورت اس بات کی تھی کہ جو فنڈز دیے جا چکے ہیں ان کا حساب لیا جائے۔ پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ نے بھی اسے ہارس ٹریڈنگ قرار دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کو ایسے فنڈز کی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں بہت پیسہ اٹھ گیا ہوگا۔ قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی وسیم حسین نے سندھ کا مسئلہ اٹھا دیا۔ ان کا موقف تھا کہ سندھ میں شہری علاقوں میں اور اردو بولنے والوں کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے۔ ایم کیو ایم کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو فنڈز نہیں دیے جارہے۔ نفیسہ شاہ کا اعتراض بجا ہوسکتا ہے لیکن ایسے ہی الزامات 2013ء سے پہلے کی پیپلز پارٹی کی حکومت پر لگتے رہے ہیں۔ گویا ہر حکومت عوامی خزانے کو ریوڑیوں کی طرح اپنوں ہی میں بانٹتی رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عام انتخابات سے کم از کم چھ ماہ پہلے ہی ترقیاتی فنڈز کی تقسیم روک دی جائے تاکہاس رقم سے ووٹ خریدنے اور الیکشن سے پہلے دھاندلی کی کوشش نہ کی جائے۔ درحقیقت ترقیاتی فنڈز کے نام پر یہ لوٹ کا مال ہے اور ایسے مال پر جھگڑا معمول ہے۔