پاکستان میں پان، مین پوری، گٹکا، چھالیہ، نسوار اور دیگر مضر صحت اشیاء کا بڑھتا ہوا استعمال منہ کے کینسر کی بہت بڑی وجہ بنتا جا رہا ہے، پروفیسر محمد طارق رفیع

794
جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد طارق رفیع ورلڈ اورل ہیلتھ ڈے کے موقع پر جناح یونی ورسٹی کی ڈینٹل اوپی ڈی کے دو سال مکمل ہونے پر کیک کاٹ رہے ہیں

کراچی (اسٹاف رپورٹر) پاکستان میں پان، مین پوری، گٹکا، چھالیہ، نسوار اور دیگر مضر صحت اشیاء کا بڑھتا ہوا استعمال منہ کے کینسر کی بہت بڑی وجہ بنتا جا رہا ہے، پاکستان میں سالانہ تین لاکھ سے زائد افراد منہ کے کینسر کا شکار ہو رہے ہیں جب کہ کراچی میں یہ تعداد 30 فی صد سے زائد ہے، ایک لاکھ کے قریب سالانہ صرف کراچی میں رپورٹ ہو رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد طارق رفیع نے ”ورلڈ اور ہیلتھ ڈے“ کے موقع پر سندھ انسٹی ٹیوٹ آف اورل ہیلتھ سائنسز میں منعقدہ آگہی سیمینار سے خطاب کے دوران کیا۔ اس موقع پر پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر لبنیٰ انصاری بیگ، پرنسپل ایس ایم سی کالج پروفیسر غلام سرور قریشی، ڈین پروفیسر کیفی اقبال، ڈاکٹر غزالہ عثمان اور پرنسپل پروفیسر زبیر عباسی سمیت دیگر اراکین فیکلٹی بھی موجود تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد طارق رفیع نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ پاکستان منہ کے کینسر میں مبتلا افراد کی تعداد کے لحاظ سے ایشیائی ممالک میں سرفہرست ملک ہے، 15 سال قبل منہ کے کینسر کا شکار ہونے والے افراد کی عمریں 50 سال سے زائد ہوتی تھیں مگر پاکستان میں پان، چھالیہ، گٹکے، مین پوری اور سگریٹ نوشی کے استعمال سے اب 14 سے 15 سال کے نوجوانوں میں اس کی شرح میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، کراچی میں ہر سال منہ کے کینسر کے ایک لاکھ کے قریب کیسز رپورٹ ہورہے ہیں جو انتہائی تشویش ناک امر ہے۔ پروفیسر طارق رفیع کا مزید کہنا تھا کہ اگر بروقت اور فوری اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور پان، مین پوری، گٹکا، ماویٰ، نسوار اس قسم کی دیگر مضر صحت اشیاءجو بھارت سے بھی منگوائی جاتی ہیں، ان پر سخت ترین پابندی نہیں لگائی گئی تو منہ کے کینسر میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد میں انتہائی خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ پروفیسر طارق رفیع نے بتایا کہ بازار میں ملنے والی مختلف اقسام کی میٹھی سپاری جو بچے اور خواتین بھی بڑی تعداد میں استعمال کرتے ہیں، منہ کے کینسر میں مبتلا کرنے کی ایک اہم اور ابتدائی وجہ ہے، سندھ انسٹی ٹیوٹ اورل ہیلتھ سائنسز کے مطالعے کے مطابق میٹھی سپاری کھانے والے 10 فی صد افراد منہ کے کینس میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ایک مرتبہ منہ کا کینسر ہو جائے تو اس سے بڑی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔ پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر لبنیٰ انصاری بیگ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اورل ہیلتھ امراض سے بچاؤ کے لیے آگہی مہم چلانا بہت ضروری ہے اور یہ ہماری مشترکہ ذمے داری ہے کہ اس مرض کے خلاف عوام میں زیادہ سے زیادہ آگہی فراہم کریں۔ ڈین پروفیسر کیفی اقبال نے یونی ورسٹی میں قائم کی جانے والی ڈینٹل او پی ڈی کے حوالے سے بتایا کہ گزشتہ ایک برس کے دوران یہاں 9,165 افراد کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی گئیں جب کہ 2 برس کے دوران 16 ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا گیا، ان میں سے ساڑھے چار ہزار مریضوں کو بلا معاوضہ علاج کی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ علاوہ ازیں جناح یونی ورسٹی کی ڈینٹل او پی ڈی کے دو سال مکمل ہونے پر کیک بھی کاٹا گیا۔