کراچی کا اصل گند صاف کریں

390

چیف جسٹس پاکستان جناب ثاقب نثار نے حکم دیا ؟کہ ایک ہفتے میں کراچی کی صفائی مکمل کی جائے۔ کراچی میں اتنا گند ہے کہ ساری رات مچھر مارتا رہا۔ انہوں نے ہدایت دی کہ گند صاف کرنا کس کا کام ہے سیاست سے بالاتر ہوکر سب سوچیں‘جس کی جو ذمے داری ہے پوری کرے۔انہوں نے میئر کراچی اور چیف سیکرٹری کو حکم دیا کہ آئندہ کراچی آؤں تو گندگی نظر نہیں آئے۔چیف جسٹس نے مرض کی تشخیص بھی کردی اور خرابی کے ذمے داروں کا تعین بھی کردیا یعنی میئر اور حکومت سندھ اسی مناسبت سے چیف سیکرٹری کو صفائی کا حکم دیا۔ لیکن ہم چیف جسٹس صاحب کی خدمت میں ایک عرض کرناچاہتے ہیں کہ کراچی میں جو گند ہے وہ ایک ہفتے میں صاف نہیں ہوگا۔ یہ واضح رہے کہ اگلے ایک ہفتے میں پی ایس ایل فائنل ہے خوب لیپاپوتی ہورہی ہے کچھ نئی لائٹیں جو لگتے ہی خراب ہوگئی تھیں اضافی بجٹ حاصل کرکے تبدیل کی جارہی ہیں۔ کچھ نئی سڑکوں پر فٹ پاتھ رنگے جارہے ہیں ‘جہاں کچھ کرنے کا نہیں وہاں دیواروں پر رنگ اور تصاویر پینٹ کی جارہی ہیں۔ بڑی بڑی شاہراہوں سے کچرا بھی اٹھ رہا ہے ۔ نیشنل اسٹیڈیم کے چاروں طرف دو ‘دو کلومیٹر تک صفائی ہورہی ہے۔ یہ کام شاید ایک ہفتے میں ہوجائے۔ لیکن اسکے لیے بھی حکومت نے 22کروڑ روپے اضافی جاری کیے ہیں۔ چیف صاحب اگلے دورے پر جب کراچی آئیں گے تو شہر پی ایس ایل کی وجہ سے باہر باہر سے صاف ہوچکا ہوگا۔ انہیں وہاں جانے کا موقع بھی نہیں ملے گا جہاں گرد وغبار کی وجہ سے مچھر ہی مر جاتے ہیں ۔ اورنج لائن منصوبے پر جس بے ہنگم طریقے سے کام ہورہاہے اس جانب تو انہیں جانے بھی نہیں دیاجائے گا۔ سندھ کی انتظامیہ ۔۔ سمجھدار ہے کہ اگلے دورے میں چیف جسٹس کیلیے بہت سی دوسری مصروفیات رکھ دی جائیں گی۔یہ مسئلہ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا نہیں ہے بلدیہ کراچی میں جن لوگوں کو کچرا اٹھوانا ہے کس کا پھینکا ہوا کچرا ہیں۔ سندھ حکومت میں جو لوگ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے ذمے دار ہیں اسی کا جمع کیا ہواگند ہیں۔ ایک چیف جسٹس نے 11برس قبل پنشنرز کو ان کے بینک اکاؤنٹ میں پنشن منتقل کرنے کا حکم دیا تھا لیکن آج تک پنشنرز دھکے کھا رہے ہیں۔ ایک چیف جسٹس نے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو سڑکوں پر لانے پرپابندی لگائی تھی تو آج تک بڑی بسیں سڑکوں پر دھواں چھوڑتی گھوم رہی ہیں۔ موجودہ چیف جسٹس نے رفاہی پلاٹوں پرقبضہ ختم کرانے اورغیرقانونی تعمیرات منہدم کرنے کا حکم دیا تھا ۔ لیکن بلدیہ کراچی جس میں’’کسی‘‘کا جمع کیا ہوا گند بھرا ہوا ہے اس نے مخصوص پلاٹوں پر توڑ پھوڑ شروع کردی۔ کسی بھی متحدہ گروپ کے بندے کا شادی ہال نہیں توڑا جارہا۔ صدیق راٹھور کا ہال توڑ دیاگیا۔غیرقانونی وہ بھی تھا۔ لیکن ایک کالج کے پلاٹ پر شادی ہال جائز ہے۔ پارکس پر رہائش گاہ بناکر بیچ دینے والے تو بچ گئے لیکن یہی بلدیہ صرف ان مقامات پر کارروائی کررہی ہے جہاں ان کے ناپسندیدہ لوگ رہتے ہیں۔ زیادہ زوردیا تو صاف انکار کردیاکہ ہم تو ہزاروں تجاوزات کو نہیں توڑسکتے۔ اختیارات مشینری اور افرادی قوت نہیں ہے۔ چیف صاحب کراچی کا گند صاف کرنا ہی ہے تو یہاں کے نظام میں جڑوں تک پھیلے ہوئے گند کو صاف کرنا پڑے گااور اب گندکی صفائی انتظامی یا عدالتی حکم سے نہیں شفاف انتخابات سے ممکن ہے۔ اگر کراچی کو شفا ف انتخابات نہ ملے تو یہ گند اتنا بڑھے گا کہ ایک ہفتے میں صفائی یا مچھرمارنے تک بات نہیں رہے گی بلکہ اس کراچی میں چیف جسٹس کی آمد ممکن نہ رہے گی۔ پہلے کسی نے روکا تھا اب بھی کوئی یہ کرسکتا ہے کیوں کہ ایساکرنے والے سارے لوگ کسی نہ کسی طور سیاست ‘حکومت بلدیہ وغیرہ میں موجود ہیں۔ جن لوگوں نے چیف جسٹس افتخار چودھری کو کراچی نہیں آنے دیا تھا وہ سب اب تک پیچیدہ عدالتی نظام میں پیشیوں ‘تاریخوں ‘گواہوں اور ثبوتوں کے مزے لے رہے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب یہاں 260لوگوں کو ایک فیکٹری میں زندہ جلادیاگیااور عدالتی نظام اب تک مجرموں کا تعین نہیں کرسکا۔بہت سارے لوگ پکڑے گئے اور بے قصور قرار پائے۔ اس گندکی موجودگی میں نہ ایک ہفتے میں صفائی ہوگی نہ چیف جسٹس کے کسی حکم پر عمل ہوگا۔ انتخابی نظام ‘حلقہ بندیوں میں گھپلے ‘انتخابی عملے کے تقرر‘انتخابی فہرستوں میں گڑبڑ ‘نتائج مرتب کرنے کا نظام الیکشن کمیشن کے اختیارات ‘انمٹ سیاہی ‘الیکٹرانک ووٹنگ اتنا گند ہے کہ مچھر مارنے کی بھی فرصت نہیں ملے گی۔ یہ سارا گند صاف کرنا ہوگا۔ بہرحال چیف جسٹس پہلے مرحلے پر توا پنے اس حکم پر عملدرآمد کی رپورٹ طلب کریں کہ سات روز میں کس قدر صفائی ہوئی ۔ ضرور کچھ نہ کچھ صفائی ہوجائے گی لیکن میئر ‘چیف سیکریٹری اور واٹر بورڈ کو اندرونی سڑکوں اورگلیوں پر بھی رحم کرنے کا حکم دیں۔ اور اس کو عملی جامہ بھی پہنائیں۔ کراچی کے بلدیاتی اداروں میں یہ گند ان دھواں چھوڑتی بسوں کی طرح ہے جن کے خلاف عدالت عظمیٰ فیصلہ دے چکی ہے۔ پنشنرز کو لائنوں میں لگانے والے بھی یہی لوگ ہیں اس گند کو نکالیں تو آپ کے منع کرنے کے باوجود لوگ آپ کی تعریف کیلیے برسوں مہم چلاتے رہیں گے۔ سب ملکر کام کریں۔پاکستان مسلم لیگ کے نئے صدر میاں شہباز شریف نے خدا کے نام پر اپیل کی ہے کہ فوج ‘عدلیہ اور سیاستدان ملکر کام کریں ورنہ آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی۔ انہوں نے ڈیرہ غازی خان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان اور آصف زرداری پر الزام تراشی کرڈالی اگر وہ سب کے ساتھ ملکر معاملات چلانے کی خواہش کا اظہار کررہے تھے تو پھر انہیں اچھی اچھی باتیں کرنی چاہیئے تھیں لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ انہوں نے پورے جلسے میں زرداری اور نیازی کو توپوں کے سامنے باندھ رکھا ہے۔ عدالتوں اور فوج کے حوالے سے خاص طورپر کہا کہ وہ ہمارے ساتھ ملکر کام کریں۔ شہبازشریف نے اپنا مقدمہ چیف جسٹس کے پاس بھیجنے کی بھی پیشکش کی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ اس عدلیہ کے حوالے سے بہت پراعتماد ہیں جہاں ان کے بھائی کے خلاف پاناما تحقیقات کے دوران اقامہ کیس آڑے آگیا اورتنخواہ چھپانے پر وہ نااہل قرار پائے۔ کہیں ملتان میٹرو میں عمران خان کے الزامات پرریفرنس بنوانے کے نتیجے میں وہ بھی نہ پھنس جائیں کوئی اور چیز نکل آئی تو کیا ہوگا۔ بہرحال ان کی پارٹی کے ناراض رہنما سابق وزیرداخلہ چودھری نثار بھی کہہ رہے ہیں کہ ریلیف توعدلیہ ہی سے ملے گا۔ نوازشریف اداروں سے نہ الجھیں۔ میاں شہباز شریف کا پیغام واضح ہے کہ اگر عدلیہ ‘فوج اور پارلیمان نے ملکر کام نہ کیا تو نسلیں معاف نہیں کریں گی۔ لیکن نسلوں کی کب کس نے پرواکی ہے۔ کھربوں کے قرضے اگلی حکومتوں کے لیے منتقل کرنے والوں نے کبھی نسلوں کی پروا نہیں کی۔ افغان جنگ امریکا کے بجائے اپنی جنگ بنانے والے جنرل پرویز مشرف کونسلوں کی کب پرواکی تھی۔ ان سے قبل جنرل ضیاء کے اقدامات نے نسلوں کی کب پروا کی تھی۔ بھٹوصاحب نے بہت سے کام کیے کچھ اچھے بھی تھے لیکن سیاست کوپامال کرکے اسمبلی کو ربر اسٹمپ بناکر انہوں نے کب آنے والی نسلوں کی پروا کی۔ شہباز شریف اور ان کے بھائی نے جو قرضے لے لیے ہیں وہ بھی آنے والی نسلو ں کو اداکرنے ہیں وہ آپ کو معاف کریں یاقرضے دیں جو کچھ بھگتناہے آنے والی نسلوں کو بھگتناہے۔