مشرق وسطیٰ میں عرب بہار ایک حیرت اور تعجب کا نام تھا۔ کون تصور کرسکتا تھا کہ وہ جو دہائیوں سے ظلم وجبر کا شکار ہیں، ایسے خوابیدہ ہیں کہ جاگنا بھول گئے ہیں، اُٹھیں گے اور ایسے اُٹھیں گے کہ دنیا کو حیران کردیں گے۔ یہ دور ابتلا مسلمانوں پر پہلی مرتبہ مسلط نہیں ہوا۔ فلسطین کی سرزمین پر صلیبیوں نے تقریباً ایک صدی قبضہ رکھا۔ یہ دور آج کے یہود کے قبضے سے بھی زیادہ طویل تھا۔ اس وقت مسلمانوں نے یہ مثال قائم کی تھی کہ وہ دوبارہ اٹھے اور صلیبیوں سے اپنے علاقے آزاد کروائے۔ زوال کی حالت میں جو چیز امت کو سہارا اور نئی زندگی دیتی ہے وہ اسلام اور اسلامی عقیدہ ہے۔ آج تقریباً تمام تہذیبیں مغرب میں ضم ہوچکی ہیں جس چیز نے امت مسلمہ کو مکمل طور پر تباہ ہونے اور مغرب میں ضم ہونے سے محفوظ رکھا ہے وہ اسلام، اسلامی آئیڈیالوجی اور نظریہ حیات ہے۔ ہر عہد میں اسلام نے ثابت کیا ہے کہ وہ انسانوں کے بنائے ہوئے نظریہ حیات پر فوقیت رکھتا ہے۔ ان سے برتر ہی نہیں اتنا برتر ہے کہ کسی بھی پیمانے سے تقابل ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کسی بھی تہذیب میں ضم نہیں ہوتا کیوں کہ دنیا کی یہ تمام تہذیبیں اسلام سے کم تر ہیں۔
مغربی تہذیب سرمایہ داریت اور اس سے منسلک آزادیوں اور فکری مغالطوں پر کھڑی ہے۔ تعلیم، میڈیا اور ثقافتی پلیٹ فارمز سے اس تہذیب کے بے پناہ فروغ، نشر واشاعت اور اسلامی دنیا میں اپنے حکمرانوں کے ذریعے اس تہذیب کے زبردستی نفاذ کے باوجود کہیں بھی مسلمانوں نے اسلام سے اپنا تعلق نہیں توڑا۔ اسلام ہی وہ محرک تھا جس نے اہل عرب کو اپنے سیکولر حکمرانوں کے مقابل کھڑا کردیا تھا۔ نیشنل ازم، حب الوطنی اور دوسری بنیادوں کے بجائے اسلام ہی اس انقلاب کی بنیاد تھا۔ اہل شام کا نعرہ تھا ’’یہ اللہ کے لیے ہے، یہ اللہ کے لیے ہے۔‘‘ اہل شام نے دنیا کو ایک مرتبہ پھر یہ بات یاد دلادی ہے کہ مسلمان سخت جان ہیں۔ امت مسلمہ کسی کے قابو میں آنے والی نہیں۔ گمراہی کے وہ تمام گمان جو مغرب نے اسلامی دنیا میں اپنے غلام حکمرانوں کی کارکر دگی کی بنا پر قائم کر رکھے تھے اہل شام نے ان کے منہ پر مار دیے ہیں اور بتادیا ہے کہ انہیں اپنے دین اور عقیدے پر فخر ہے۔
اہل شام پر بشار الاسد، روس، ایران اور امریکا کی افواج ہر وہ ظلم آزماچکی ہیں جو ان کے بس میں ہے۔ تنظیم برائے انسانی حقوق کے مطابق 2011 سے اب تک شام میں 4لاکھ 15ہزار شہری مارے جاچکے ہیں جب کہ بیرون ملک ہجرت کرنے والوں کی تعداد 90لاکھ سے زاید ہے۔ شام میں جاری ظلم وتشدد کو سات برس ہوچکے ہیں۔ سات سال قبل شروع ہونے والی عرب دنیا میں تبدیلی کی لہر تیونس اور مصر سے گزر کر شام پہنچی۔ 15مارچ 2011 کو شام کے عوام اسلام کے لیے نعرے لگاتے دمشق، حلب اور دیگر شہروں میں نکل آئے۔ یہ اس واقعے کا ردعمل تھا جس میں شامی فوج نے دیواروں پر حکومت مخالف نعرے لکھنے والے پندرہ طالب علموں کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ شامی فوج نے 13سالہ حمزہ علی خطیب کو گرفتار کرکے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا یہاں تک کہ وہ زندگی کی بازی ہار بیٹھا۔ شامی عوام اس واقعے کے ردعمل میں سڑکوں پر آگئے۔
بشارالاسد کا خیال تھا کہ طاقت کے استعمال سے مظاہروں کو کچل دیا جائے گا لیکن حکومتی کریک ڈاؤن کی شدت کے ساتھ ہی یہ مظاہرے پورے شام میں پھیلتے چلے گئے۔ اس موقع پر امریکا اور عالمی برادری کی جانب سے بشار حکومت کی شدید مذمت کی گئی۔ بارک اوباما نے بشار کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی شامی حکومت کے اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم یہ امریکی اقدامات نمائشی اور دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے کے مترادف تھے۔ مظاہرین کی طرف سے خلافت کے نفاذ کا اعلان امریکا اور مغربی دنیا کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ امریکا ایک طرف بشار کی مخالفت کررہا تھا دوسری طرف ایسے اقدامات اٹھا رہا تھا جو بشار حکومت کو گرنے سے بچا سکیں۔ ایک ایسے موقع پر جب بشار حکومت صبح شام کی مہمان تھی امریکا نے بشار کی مدد کے لیے ایران کو آگے بڑھایا۔ 2013 تک شام میں تحریک مکمل طور پر مجاہدین کے حق میں تھی۔ اسی سال عراق اور شام میں امریکا نے داعش تخلیق کی۔ اسی برس بشار نے شامی شہریوں پر بے دریغ کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جس کی اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے شدید مذمت کی۔ شامی شہر الرقہ پہلا شہر تھا جس پر داعش نے کنٹرول حاصل کیا جس کو جواز بناکر امریکی اتحادی افواج نے 22ستمبر 2014 سے شام میں فضائی حملے شروع کیے۔ 2015 میں داعش کو نشانہ بنانے کے نام پر روس نے بھی مجاہدین کے ٹھکانوں پر بے پناہ بمباری شروع کردی۔ روسی فضائیہ کی مدد سے بشار کی افواج نے کئی علاقوں کو مجاہدین سے بازیاب کرالیا۔ اب بشار کی افواج کو ایران کے ساتھ حزب اللہ کا تعاون بھی حاصل ہوچکا تھا۔ روسی جنگی طیاروں، ایران اور حزب اللہ کی مشترکہ کاروائیوں کے نتیجے میں مجاہدین کو حلب میں پسپا ہونا پڑا۔ اس موقع پر ترکی، سعودی عرب اور کئی اور ممالک مجاہدین اور شامی عوام کے ہمدردوں کے طور پر سامنے آئے۔ تاہم اس دوران مجاہدین مسلسل مختلف محاذوں پر سرگرم رہے۔ لیکن آج ان محاذوں پر بھی مجاہدین کو شکست اور شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
شام کے باب میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ غیر مسلم دنیا نے یہ طے کرلیا ہے کہ کسی بھی صورت میں شام میں اسلامی انقلاب اور مجاہدین کو کامیاب نہیں ہونے دینا ہے۔ صرف غیر مسلم دنیا ہی نہیں اس مشن میں سعودی عرب، قطر، بحرین اور ترکی بھی شامل ہیں جو بظاہر مجاہدین کے دوست بنے ہوئے ہیں۔ مجاہدین کی مالی مدد کررہے ہیں۔ جب تک مجاہدین آزادانہ طور پر جہاد کر رہے تھے وہ کامیاب تھے۔ جب سے وہ مسلم ممالک کے ان دوستوں کے نرغے میں آئے ہیں، ان سے فوجی، مالی اور تیکنیکی امداد لے رہے ہیں، فتحیاب ہونے کے بجائے ہر محاذ پر پسپا ہو رہے ہیں۔ دسمبر 2016 میں بشار کی افواج نے روسی فضائیہ کی مدد سے حلب پر حملہ کیا۔ مجاہدین ثابت قدمی سے ان حملوں کا دفاع کررہے تھے۔ اس موقع پر ترکی نے حلب سے سو کلومیٹر کے فاصلے پر داعش کے خلاف ایک نیا محاذ کھول دیا اور اس محاذ پر اپنی فوجیں داخل کردیں۔ وہ لڑا کا گروپ جو حلب کے محاذ پر سرگرم تھے ترکی نے انہیں مجبور کیا کہ وہ داعش سے جنگ میں اس کی مدد کو آئیں۔ ان مجاہدین کے حلب خالی کرنے کے نتیجے میں حلب کا محاذ کمزور پڑ گیا اور بشار کی فوجیں حلب پر قبضہ کرنے میں کا میاب ہوگئیں۔ حلب میں بشار کی افواج مسلمانوں کا قتل عام کرتی رہیں اور تھوڑے ہی فاصلے پر موجود ترکی کی افواج نے ان مسلمانوں کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ آج جب کہ ادلب اور مشرقی غوطہ پر بشار اور روس کی افواج مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہیں۔ ترکی کی فوجیں شام میں آفرین کے مقام پر کردوں سے لڑنے کے لیے موجود ہیں لیکن غوطہ اور ادلب کے مسلمانوں کو بچانے کے لیے حرکت میں نہیں آرہی ہیں۔ مجاہدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لائیں اور فوری طور پر تین اقدام کریں۔
اول۔ فوری طور پر اپنے ان مسلم اور غیر مسلم دوستوں پر انحصار ختم کریں جو دوست کے بھیس میں دشمن اور امریکا اور مغرب کے ایجنٹ ہیں اور مجاہدین سے ڈبل گیم کھیل رہے ہیں۔ دوئم۔ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ مختلف چھوٹے چھوٹے گروہ ختم کرکے ایک بڑا گروہ تشکیل دیں۔ سوئم۔ دمشق کو جنگ کا مرکز بنائیں۔ اللہ مجاہدین کا حامی وناصر ہو۔