کنٹرول لائن جنوبی ایشیا کا رستا ہوا زخم

343

بھارت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے ایک بار پھر یہ دھمکی دی ہے کہ ملک بچانے کی خاطر بھارتی فوج سرحد پار کر سکتی ہے۔ اس سے پہلے بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت کہہ چکے ہیں کہ کنٹرول لائن پر امن ہماری شرائط پر ہوگا بلکہ پاکستان ہمیں کنٹرول لائن پر چوکس اور چوکنا رکھتا تھا اب ہم نے پاکستانی فوج کو کنٹرول لائن پر مصروف کردیا ہے۔ اس سے یوں لگتا ہے کہ بہت سوچ سمجھ کر ڈیورنڈ لائن سے کنٹرول لائن تک بھارت نے پاکستانی فوج کو مصروف رکھنے کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔ صرف یہی نہیں ایک طرف کنٹرول لائن پر بلااشتعال گولہ باری کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے عوام میں بے چینی پیدا کرنے کے لیے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستان جوابی کارروائی میں شہری آبادیوں اور فوجی تنصیبات کا فرق روا نہیں رکھتا۔ اس کے لیے مقبوضہ پونچھ کے مینڈھر علاقے میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کی ہلاکت اور دو کا زخمی ہونا ہے۔ اطلاعات مقبوضہ علاقے کا یہ گھر پاکستانی فوج کی جوابی گولہ باری کا نشانہ بنا۔ بھارتی میڈیا نے بھی اس واقعے کی اس انداز سے رنگ آمیزی کی کہ مقبوضہ علاقے کے عوام میں یہ تاثر گہرا ہو کہ پاکستان کو وہاں کی آبادی کا کوئی احساس نہیں۔ اخبارات نے اس واقعے کو شہ سرخیوں میں اور ٹی وی چینلوں نے بریکنگ نیوز کی صورت میں چلایا۔
حقیقت یہ ہے کہ کنٹرول لائن پر مقبوضہ کشمیر کی آبادی پاک فوج کی کمزوری رہی ہے اور وہ بھارت کی بلااشتعال گولہ باری کے جواب میں حد درجہ احتیاط برتا جا تا ہے۔ اسی کمزوری کا فائدہ بھارتی فوج آج کل اُٹھا رہی ہے۔ ایسے میں صدر آزادکشمیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ کنٹرول لائن پر بنکرز کی تعمیر کے لیے فنڈز منظور ہو چکے ہیں۔ جلد ہی بنکروں کی تعمیر شروع ہو جائے گی۔ کنٹرول لائن پر بسنے والے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے طبی سہولتوں سمیت ایمبولینسیں فراہم کی جائیں گی۔ جدید سڑکوں کی تعمیر ہوگی اور ضلعی انتظامیہ کو متاثرین کی داد رسی کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں گے۔ صدر آزادکشمیر کے ان اعلانات سے پہلے بھی وزیر اعظم راجا فاروق حیدر اور کابینہ کمیٹی اس طرح کی سفارشات پیش کرچکی ہے۔اس معاملے میں سب بڑی رکاوٹ فنڈز کی منظوری تھی۔ سردار مسعود خان نے فنڈز کی منظوری کی نوید سنادی ہے اور اب اس منصوبے پر عمل درآمد کا مرحلہ آن پہنچا ہے۔ فنڈز کی منظوری سے بھی بڑا مسئلہ فنڈز کا دیانت داری سے استعمال ہے۔ اکثر اوقات فنڈز زمین پر لگنے کے بجائے ایک مخصوص اور بااثر طبقہ کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں۔ زلزلے کے بعد تعمیر نو اور بحالی کے تمام مراحل میں عوام کو یہی مناظر دیکھنے کو ملے۔ اب بھی بعید نہیں کہ کنٹرول لائن کے متاثرین کے لیے منظور ہونے والے فنڈز بیوروکریسی اور سیاسی لوگوں کی ملی بھگت کی نذر ہوجائیں۔ اس لیے ان فنڈز کے استعمال کی مانیٹرنگ کا شفاف اور سخت نظام اپنانا بھی لازمی ہے۔
کنٹرول لائن کے قریبی علاقوں کے عوام اس وقت انتہائی کربناک حالات سے گزر رہے ہیں۔ انسان، مویشی، کھیت کھلیان، مکان اور دکان غرضیکہ کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی گاؤں میں کوئی لاشہ نہ اُٹھتا ہو۔ بھارتی فوجی تاک کر انسانوں پر گولیاں برساتے ہیں۔ گولیوں کی زد میں آنے والے اکثر لوگ معصوم اور نہتے ہوتے ہیں ان میں کوئی درانداز نہیں ہوتا، کوئی اسلحہ بردار نہیں ہوتا، کسی کے ہاتھ میں گرنیڈ اور بندوق نہیں ہوتی۔ یہ آزادکشمیر کا کوئی عام شہری ہوتا ہے جو غمِ روزگار میں گھر سے نکلا ہوتا ہے اور بھارتی فوج کی نشانہ وار گولی جس کا کام تمام کرتی ہے اور یوں ایک اور گھر اور خاندان میں المیہ کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔ اس صورت حال میں کنٹرول لائن پر 2004 کی جنگ بندی عملاً ختم ہو چکی ہے۔ جن علاقوں میں بظاہر امن بھی ہے وہاں بھی ہر دم خوف کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں اور کچھ ہوجانے کا دھڑکا عوام کو غیر یقینی کے عذاب میں مبتلا رکھے ہوئے ہے۔ نیلم اور لیپا کی حسین وادیوں میں یا تو بھارتی فوج کی گولہ باری ماحول پر خوف طاری کیے ہوئے ہے یا کچھ ہوجانے کے احساس نے مقامی افراد اور سیاحوں کو خوف ودہشت میں مبتلا کیے ہوئے۔ یوں صاف دکھائی دیتا ہے ملک بھر سے لاکھوں سیاحوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے والی وادیاں آنے والے گرم موسم میں سیاحوں کے بانہیں وا نہیں کر سکیں گی۔ کشیدگی کے باعث اس بار یہ وادیاں سونی سونی رہنے کا امکان ہے۔ نکیال سیکٹر میں تو انسانی زندگی اجیرن ہو چکی ہے اور یہاں بستیاں اور گھر ماتم کدوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ سول اور عسکری حکام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مستقبل قریب میں یہ سلسلہ کم تو ہو سکتا مگر کلی طور پر اس کے خاتمے کی صورت نظر نہیں آتی۔
بھارت کے سیاسی اور فوجی حکام کے بیانات اور ارادے بھی اس بات کا پتا دے رہے ہیں کہ بھارت اب کلبھوشن ڈاکٹرائن کی ناکامی کے بعد کنٹرول لائن پر براہ راست دباؤ بڑھانے کی راستہ اختیار کر چکا ہے۔ کنٹرول لائن عبور کرنے اور سرجیکل اسٹرائیکس کی دھمکیوں کا مقصد بھی پاک فوج ان علاقوں میں ہمہ وقت مصروف رکھنا ہے۔ کنٹرول لائن پر ہونے والی فائرنگ کا بھارت کو قطعی کوئی نقصان بھی نہیں کیوں کہ بھارتی فوج کے آگے تو مسلمان آبادیاں ہیں ہی ان کے پیچھے بھی مسلمان اور آمادہ بغاوت آبادی ہے ایسی آبادی جو پتھر اُٹھائے بھارتی فوج کے ساتھ عملی طور برسر جنگ ہے۔ اس آبادی کا مرنا یا زندہ رہنا بھارت کے لیے برابر ہے۔ اس لیے کنٹرول لائن کے عوام کو مضبوط اور باحوصلہ بنانے کے لیے ان کی مشکلات کو کم کرنے کی ضرورت ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام کی حفاظت اور بحالی کے نظام کو بددیانتی اور کرپشن کی نذر ہونے سے بچانا بھی ضروری ہے۔