بلدیہ عظمیٰ کی طرف سے عدالت عظمیٰ اور حکومت کو گمراہ کیے جانے کا انکشاف

387

کراچی (رپورٹ: محمد انور) بلدیہ عظمیٰ کراچیکی طرف سے شہر میں رفاہی پلاٹوں سمیت ہر طرح کی تجاوزات کی تفصیلات کا علم ہونے کے باوجود عدالت عظمیٰ اور حکومت سندھ کو گمراہ کرنے اور ان تجاوزات کے خاتمے کے لیے حکومت سے ایک ارب 20 کروڑ روپے کی فوری ادائیگی کا مطالبہ کرنے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ یہ انکشاف بلدیہ کراچی کے قائم مقام میٹروپولیٹن کمشنر ڈاکٹر اصغر عباس کی طرف سے سیکرٹری بلدیات کو عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت پٹیشن کے حوالے ارسال کیے گئے ایک نوٹ سے ہوا۔ 16 فروری کو لکھے گئے نوٹ نمبر secy/mc/kmc/2018/1۔14 میں سیکرٹری بلدیات کو آگاہ کیا گیا ہے کہ عدالت نے جن تجاوازت کو ہٹانے کا حکم دیا ہے کہ وہ سابق سٹی گورنمنٹ کے دور میں 2003ء سے 2015ء کے دوران قائم ہوئیں جس کی وجہ اُس وقت کی شہری حکومت کے اینٹی انکروچمنٹ ڈپارٹمنٹ کی ناقص کارکردگی اور غفلت ہے۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ ان تجاوزات کو عدالت نے جلد سے جلد ہٹانے کا حکم دیا ہے‘ کے ایم سی کو فنڈز کی کمی کا سامنا ہے اس لیے حکومت فوری طور پر ایک ارب 20 کروڑ روپے فراہم کرے۔ اگرچہ آج تک صوبائی حکومت نے اس خط کا ایک ماہ گزرنے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا تاہم میئر وسیم اختر نے اس کیس کی حالیہ سماعت کے دوران عدالت کو بتایا تھا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ماسٹر پلان سے کے ایم سی نے قبضہ کیے گئے رفاہی پلاٹوں کی تفصیلات مانگی ہے جو انہوں نے تاحال نہیں دی۔ شہری امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کے ایم سی رفاہی پلاٹوں کے قبضہ کیے جانے کے ادوار سے واقف ہے تو ان پلاٹوں کی تفصیلات کا علم کیوں نہیں ہے؟۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شہری ضلعی حکومت2011ء میں ختم کی جا چکی تھی اور کے ایم سی بحال ہوگئی تھی لیکن میٹروپولیٹن کمشنر نے تحریری طور پر غلط بیانی کرتے ہوئے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ تمام تجاوزات 2003ء سے 2015ء کے دوران جب شہری حکومت قائم تھی اس وقت محکمہ انسداد تجاوزات کے عملے کی غفلت اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے قائم ہوئی ہیں حالانکہ شہریوں کا دعویٰ ہے کہ تجاوزات کے قیام کا سلسلہ تاحال جاری ہے‘ ہٹائی جانے والی تجاوزات اسی روز شام کو دوبارہ بحال ہوجاتیں ہیں۔ میٹروپولیٹن کمشنر نے خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ چونکہ کے ایم سی کے پاس فنڈز کی کمی ہے جبکہ اس مقصد کے لیے مشینری بھی دستیاب نہیں ہے اس لیے تجاوزات فوری ہٹانے میں دشواری ہے ‘حکومت ایک ارب 20 کروڑ روپے ادا کرے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت نے گزشتہ سال ہی گوجر نالے کے اطراف سے تجاوزات ہٹانے اور نالے کی صفائی کے لیے کرائے پر حاصل کی گئی مشینری کی مد میں ایک ارب روپے کی منظوری دی تھی جس میں سے 40 کروڑ روپے کی رقم مشینوں کے کرائے میں ادا کردی گئی۔ ذرائع نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ کے ایم سی اپنے ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی کا کیا کرتی ہے ؟ جبکہ تجاوزات کے خاتمے کی مد میں بھی سالانہ کروڑوں روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ شہری امور کے ایک ماہر، ممتاز قانون دان اور اسلامک لائیرز فورم کے رہنما محمد عامر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ بلدیہ کراچی کے خط سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ وہ تجاوزات ہٹانے کے لیے تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے‘ ساتھ ہی حکومت سے غیر معمولی فنڈز حاصل کرنا چاہتی ہے۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ میئر وسیم اختر تجاوزات کی موجودگی کے بارے میں ماسٹر پلان کی تفصیلات فراہم نہ کرنے کی شکایات بھی کرتے ہیں ‘ ساتھ ہی کے ایم سی یہ بھی خط میں واضح کرتی ہے کہ تجاوزات کب سے کب تک قائم ہوئی تھیں۔ عامر ایڈووکیٹ نے مطالبہ کیا کہ نیب حکام کے ایم سی کے فنڈز کے استعمال اور بے قاعدگیوں کی اطلاعات پر فوری تحقیقات کریں۔