خادم رضوی کی گرفتاری کا حکم

390

عدالت عظمیٰ نے آئی ایس آئی کی رپورٹ پر خادم حسین رضوی کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کردیے ہیں۔ گزشتہ پیر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے فیض آباد دھرنا کیس میں تحریک لبیک کے رہنما خادم حسین اور پیر افضل قادری کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت ہدایت کے باوجود حتمی چالان پیش نہ کرنے پر پولیس پر برہم بھی ہوئی۔ عدالت عظمیٰ نے آئی ایس آئی کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش اور نا مکمل قرار دیتے ہوئے اس ادارے پر سخت تنقید بھی کی۔ آئی ایس آئی نے عدالت عظمیٰ میں جو رپورٹ پیش کی ہے اس کے مطابق خادم رضوی تسلیم شدہ بد عنوان ہے۔ خادم حسین اور پیر افضل دونوں کو مفرور قرار دیا جاچکا ہے۔ 48 صفحات پر مشتمل آئی ایس آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خادم رضوی نہایت بد عنوان شخص ہے اور اس نے فیض آباد دھرنے سے قبل ایک کروڑ روپے اکٹھے کیے، آصف جلالی بھی انتہا پسند کارروائیوں میں ملوث ہے۔ عدالت عظمیٰ کے مطابق یہ شخص دوسروں کے پیسے پر پل رہا ہے، ایجنسی نے یہ کیوں نہیں لکھا کہ اس کا ذریعہ آمدن کیا ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے ریمارکس تھے کہ ایجنسی کو پتا ہی نہیں یہ شخص کرتا کیا ہے، ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی کا یہ حال ہے۔ خادم رضوی اچانک ہی ابھر کر سامنے آیا ہے اور اپنے جیسے بہت سے لوگوں کا لیڈر بن گیا ہے۔ حیرت ہے کہ اس کی بد زبانی اور گالیاں دینے پر اس کے چاہنے والوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ دھرنے کے دوران میں خادم رضوی نے عدلیہ کے ججوں سمیت مختلف ریاستی اداروں کو نہایت شرمناک گالیاں دیں۔ انتہائی گندی گالیاں دینے کا اسلام سے کجا کسی مہذب شخص سے کوئی تعلق نہیں مگر خادم رضوی بے خوف ہوکر سب کو گالیاں دیتا رہا اور اس بد زبانی کا جواز بھی پیش کرتا رہا۔ قیادت کے مسئلے پر دھرنے کے دوران ہی میں خادم رضوی اور آصف جلالی میں تنازع سامنے آگیا تھا جو معلوم وجوہ کی بنا پر دب گیا۔ آصف جلالی لاہور میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے تھے اور کراچی میں بھی کچھ لوگوں نے نمائش چوک پر ان کی تقلید کی۔ دھرنے کی وجہ سے راولپنڈی اسلام آباد کے لوگ عرصے تک پریشان ہوتے رہے۔ پھر حیرت انگیز طور پر پاک فوج درمیان میں آگئی اور نہ صرف خادم رضوی سے معاہدہ کیا بلکہ ایک جرنیل صاحب نے عوام کو پریشان کرنے اور سب کو گالیوں سے نوازنے پر بطور انعام رقوم بھی دیں۔ گو کہ جنرل باجوہ نے اس معاہدے سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے لیکن خادم رضوی اپنی گرفتاری کے حکم پر مذکورہ معاہدہ تو درمیان میں لائے گا جس میں فوج کی طرف سے کچھ ضمانتیں دی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس(آئی ایس آئی) بھی فوج ہی کا ایک ادارہ ہے۔ اگر اس کی رپورٹ نامکمل ہے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ خادم رضوی اور اس کے چیلوں کی گرفتاری پر خدشہ ہے کہ اس کے چاہنے والے ملک میں ہنگامہ برپا کرسکتے ہیں اور اگر ناکافی ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر خادم رضوی بے گناہ ٹھیرا اور عدالت سے صاف ستھرا ہوکر نکل آیا تو اس کی سیادت پکی ہوجائے گی۔ ایسے شخص پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے تیاریاں مکمل ہونی چاہییں ورنہ الٹی آنتیں گلے پڑسکتی ہیں۔