شوق، اظہار شوق اور ایسی سامنے کی شاعری، حضرت ابراہیم ذوق کا معجزہ کلام ملاخطہ فرمائیے:
وہ صبح کو آئیں تو کروں باتوں میں دوپہر
اور چاہوں کہ دن تھوڑا سا ڈھل جائے تو اچھا
ڈھل جائے جو دن بھی تو اسی طرح کروں شام
اور چاہوں کہ گر آج سے کل جائے تو اچھا
جب کل ہو تو پھر یونہی کہوں کل کی طرح سے
گر آج کا دن بھی یونہی ٹل جائے تو اچھا
القصہ نہیں چاہتا جائیں وہ یہاں سے
دل ان کا یہیں کاش بہل جائے تو اچھا
ہم استاد ذوق کے کلام کے سحر میں گرفتار تھے کہ ایک قاری کا فون آگیا۔ ان کی طویل گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں نے عقل اور فکر کی روش کو چھوڑ کر خود فراموشی اختیار کر رکھی ہے۔ عصر جدید میں ہر شعبہ میں ہونے والے کارناموں کے دروازے مسلمانوں نے اپنے اوپر بند کررکھے یا وہ ان سے محاذ آرائی اور تصادم کی حالت میں ہیں۔ ہندوؤں کی مثال لے لیجیے۔ نہرو کے زمانے میں وہ سوشل ازم سے قریب تھے۔ آج سرمایہ دارانہ نظام کے مقلد ہیں۔ کل سوشل ازم ان کے لیے مسئلہ تھا اورنہ آج سرمایہ دارانہ سودی نظام۔ باقی دنیا کی بھی یہی حالت ہے لیکن مسلمانوں کا معاملہ سب سے ہٹ کر ہے۔ کل مسلمانوں کی سرگرمیاں سوشل ازم کے خلاف تھیں تو آج وہ سرمایہ دارانہ نظام سے متصادم ہیں۔ دنیا تہذیب جدید سے استفادہ کررہی ہے لیکن مسلمان اسے شیطان کا مظہر اور گندگی کا مرکز سمجھتے ہیں۔ اقبال نے ایک عرصہ مغرب میں گزارا لیکن ان کے کلام میں بھی مغرب سے فریفتگی اور پسندیدگی کے بجائے انکار اور تردید نظر آئی ہے۔
نشستم بانکو یان فرنگی
ازاں بے سور تر روزے ندیدم
(ترجمہ) میں خُوبان فرنگ کے ساتھ بیٹھا اپنی عمر میں کوئی ایسا بے نور دن یاد نہیں جو ویسا گزرا ہو۔
قاری کا سوال بہت اہم تھا۔ مسلم اور غیر مسلم دنیا کے فکر و عمل میں اس فرق کو سمجھنے کے لیے ہمیں ایک بنیادی نکتے پر غور کرنا ہوگا۔ دنیا میں بہت ساری قومیں ایسی ہیں جو اپنا مذہب، دین یا عقیدہ تو رکھتی ہیں لیکن اس مذہب میں کوئی تہذیب یعنی ’’زندگی سے متعلق تصورات‘‘ نہیں پائے جاتے جیسے عیسائیت یا بدھ مذہب۔ چوں کہ ان اقوام کا دین یہ تصورات نہیں دیتا لہٰذا ان لوگوں نے زندگی کے بارے میں انسانوں کے بنائے ہوئے کچھ مخصوص تصورات کو اختیار کرلیا ہے۔ یہی تصورات ان قوموں کی تہذیب بن گئے ہیں۔ جس کا ان کے مذہب سے کوئی سروکار نہیں۔ یوں مختلف اقوام نے مختلف مذاہب رکھنے کے باوجود ایک ہی تہذیب اختیار کرلی ہے۔ جیسے جاپانی، ہندو، سکھ، فرانسیسی۔ اگرچہ ان اقوام کے دین اور مذہب مختلف ہیں لیکن چوں کہ ان کے دین سے کوئی تہذیب یا زندگی کے تصورات نہیں نکلتے اس لیے ان تمام قوموں نے اس عہد کی غالب تہذیب یعنی سرمایہ دارانہ تہذیب کو اختیار کرلیا ہے۔ سرمایہ دارانہ تہذیب زندگی سے متعلق جو تصورات دیتی ہے ان کے اختیار کرنے میں ان اقوام کے مذاہب رکاوٹ نہیں ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ تہذیب اختیار کرنے میں ان اقوام کے مذاہب کیوں حائل نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مذاہب کی تعلیمات کو اتنا مسخ کردیا گیا ہے کہ اب وہ سیال اور رقیق حالت میں ہیں۔ ان میں اتنی جان ہی نہیں کہ وہ کسی تہذیب، نظریے اور خیال کو چیلنج کرسکیں۔ وہ کسی تہذیب اور آئیڈیالوجی سے متصادم ہونا تو درکنار اس کے صحیح و غلط اور نقص و کمال کو جانچنے، پرکھنے اور ناپنے کا کوئی پیمانہ ہی نہیں رکھتے۔ نہرو سے پوچھا گیا ’’ہندو کی تعریف کیا ہے؟‘‘۔ نہرو نے بہت سوچنے کے بعد جواب دیا ’’جو اپنے آپ کو ہندو کہے وہ ہندو ہے‘‘۔ ہندو کی ایک تعریف یوں بیان کی گئی ہے ’’جو کسی چیز میں believe نہیں کرتا وہ ہندو ہے اور جو ہر چیز میں believe کرتا ہے وہ ہندو ہے‘‘۔ یہودیوں کی عبرانی بائبل اور عیسائیوں کی عہدنامہ عتیق میں کئی اختلافات ہیں۔ عہدنامہ عتیق میں متعدد ایسے اضافے ہیں جو عبرانی بائبل میں نہیں۔ ان اضافوں میں نو سو سال تک کام ہوتا رہا اور یہ بتانا محال ہے کہ کون سا اضافہ کب اور کیوں ہوا اور کس نے کیا لیکن اس کے باوجود عالم مسیحیت اس بات پر متفق ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے شادی نہیں کی لیکن کئی برس پہلے ہارورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر کیری کنگ نے روم میں پریس کانفرنس کی اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے چوتھی صدی عیسوی کی ایک تحریر دریافت کی ہے جس میں حضرت مسیح ’’میری بیوی‘‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ قطبی زبان کا ایک نسخہ ہے۔ اس دعوے کے بعد سیدنا عیسی علیہ السلام سے متعلق یہ متفقہ معاملہ بھی زیربحث آگیا۔ یہ ساری بحثیں اس سبب سے ہیں کہ علم تاریخ کی نظر سے انبیاء کی کوئی مستند تاریخ موجود نہیں ہے جو کچھ ہے محض قیاس ہے۔ اس کے برخلاف قرآن مجید ایک ثابت شدہ حقیقت اور رسول اکرمؐ کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے۔ یہ ایسی روشن زندگی ہے کہ اس کا کوئی گوشہ تاریخ کی نظر سے اوجھل نہیں۔
اسلام ایک ایسی تہذیب یا زندگی سے متعلق تصورات کا حامل ہے جو انسانوں کی بنائی ہوئی نہیں بلکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی عطا اور الہام کردہ ہیں۔ اسلامی تہذیب عقیدۂ اسلام سے ماخوذ ہے جو زندگی سے متعلق ہر مسئلہ اور ہر شعبے میں اسلام سے رہنمائی حاصل کرتی ہے۔ اسلام زندگی کے ہر مسئلہ اور ہر شعبے میں واضح اور متعین تصورات رکھتا ہے اور تاقیامت ہر عہد کے پیداکردہ مسائل حل کرنے کی اعلیٰ ترین صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسلام کے علاوہ کہیں اور سے زندگی سے متعلق تصورات اخذ کریں۔ دنیا میں کسی بھی تہذیب یا انسان کی طرف سے کوئی فکر یا زندگی کا تصور پیش کیا جاتا ہے۔ مسلمان اسے اسلام میں موجود فکر اور تصور کے مقابل رکھ کر جانچتے، تولتے اور پرکھتے ہیں اور جب اسے اسلامی تعلیمات اور تہذیب کے خلاف یا متصادم دیکھتے ہیں مسلمانوں کے لیے وہ قابل قبول نہیں رہتا۔ مسلمان اس فکر، خیال اور آئیڈیالوجی سے متصادم ہوجاتے ہیں خواہ وہ سوشلزم ہو، سرمایہ دارانہ نظام ہو یا زندگی سے متعلق کوئی اور نظام۔
اسلام زندگی کا ایک مثبت اور معین نظام ہے جو انسان میں فضیلت اور بزرگی کو فروغ دینے کے واضح تصوارت رکھتا ہے۔ جس کو اصرار ہے یہ ہدایت ہے یہ ضلالت ہے۔ یہ نور ہے یہ ظلمت ہے۔ تفصیلات اور جزیات سے آراستہ ایک مربوط اور محکم فکر جس کا دعویٰ ہے تنہا وہی حق ہے وہی نور ہے نور کا کوئی اور ذریعہ اور سرچشمہ نہیں۔ قرآن مجید میں کہیں نور کی جمع استعمال نہیں ہوئی حالاں کہ عربی میں نور کی جمع ہے اور غیر فصیح بھی نہیں لیکن قرآن کی نظر میں نور ایک ہی ہے اور ظلمات کی کوئی حد ہے نہ حساب۔
یہ وہ نہایت اور بنیادی، گہرے اور دور رس اختلافات اور تضادات ہیں جن کی بناء پر جب تہذیب مغرب اپنے تمام سیاسی، ثقافتی، بین الاقوامی اثرات اور تصورات، اقدار حیات اور مقاصد کے ساتھ اسلام کے روبرو آئی تو عالم اسلام سے اس کا ٹکراؤ لازمی تھا۔ جب کہ دیگر اقوام مذاہب اور معاشروں کا عالم یہ ہے کہ اگر ان کا نظام عقائد، مذہب اور دین ہے تو اتنا خام، غیر متعین اور روادار ہے کہ ہر فلسفے کا ساتھ دے سکتا ہے۔ ہر سانچے میں ڈھل کر وہی صورت اختیار کرسکتا ہے لہٰذا مغربی تہذیب سے ان اقوام کا کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا جب کہ اسلام سے یہ ٹکراؤ لازمی اور ناگزیر ہے۔