ناجائز تعمیرات مسمار کرنے کا حکم

234

عدالت عظمیٰ کے واٹر کمیشن نے بغیر اجازت بننے والی بحریہ ٹاؤن اور دیگر رہائشی اسکیموں کو گرانے کا حکم دیا ہے۔ جسٹس (ریٹائرڈ) امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں واٹر کمیشن نے سماعت کے دوران میں تبصرہ کیا کہ شہر کراچی کا بیڑا غرق ہورہاہے، ہاؤسنگ اسکیموں کے نام پر شہر تباہ ہوگیا، نالے کچرے سے بھرے ہوئے ہیں، بحریہ ٹاؤن کی تعمیرات منظوری کے بغیر جاری ہیں۔ سیکرٹری بلدیات کا کہناتھا کہ ادارہ ترقیات (کے ڈی اے) کے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں ضم ہونے کے بعد تمام معاملات خراب ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ ایک ادارے کی ذمے داری دوسرے پر ڈالنے کی روایت کا تسلسل ہے۔ ادارہ ترقیات کراچی جب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں ضم نہیں ہوا تھا تو کیا کراچی میں بغیر اجازت کے تعمیرات نہیں ہورہی تھیں؟ کمیشن نے ایس بی سی اے کے ڈائرکٹر جنرل آغا مسعود عباس سے استفسار کیا کہ کس کی اجازت سے غیر قانونی تعمیرات ہورہی ہیں اور کراچی میں کتنی اور کون کون سی رہائشی اسکیمیں ہیں؟ آغا مسعود نے اعتراف کیا کہ بحریہ ٹاؤن کی تعمیرات منظوری کے بغیر جاری ہیں جس کی رپورٹ سندھ حکومت کے پاس جمع کرادی گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ رپورٹ بھی طاق نسیاں پر رکھ دی جائے گی۔ کمیشن نے بحریہ ٹاؤن کی غیر قانونی اور بلا اجازت تعمیرات کو مسمار کرنے کا حکم تو دے دیا ہے لیکن اس کے پیچھے ایک بڑی طاقت ور شخصیت ہے اور اس کی پشت پناہ سندھ کی سب سے با اثر شخصیت ہے جس کا حکم صوبائی حکومت پر بھی چلتا ہے۔ اس صورتحال میں بحریہ ٹاؤن کی تعمیرات کو مسمار کرنا آسان نہیں ہوگا۔ علاوہ ازیں اس اسکیم میں شہریوں کی ایک بڑی تعداد سرمایہ کاری کرچکی ہے۔ اس کا کیا بنے گا؟ متعلقہ سرکاری ادارے ایسی ناجائز رہائشی اسکیموں کے بارے میں عوام کو پہلے ہی سے ہوشیار کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں کیونکہ انہیں عوام کے نقصان سے کبھی کوئی غرض نہیں رہی۔ یہ ادارے اپنی آنکھیں بند رکھنے کا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ دوسری طرف اگر کوئی اپنے مکان کی ایک منزل پر دوسری منزل بنانے لگتا ہے توسب ادارے دوڑ پڑتے ہیں۔ کسی نے اپنا رزق کمانے کے لیے گھر میں چھوٹی سی دکان بھی کھول لی تو اسے کمرشل قرار دے کر بھاری جرمانہ عاید کردیا جاتا ہے۔ بڑی بڑی رہائشی اسکیموں پر ہاتھ ڈالنے کا حوصلہ نہیں ہوتا یا مٹھی گرم کرلی جاتی ہے۔ کمیشن نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو نالوں پر قائم عمارتوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔ ایسے احکامات کئی عشروں سے سنتے چلے آرہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب نالوں پر تعمیرات ہورہی ہوتی ہیں تو اسی وقت کیوں نہیں روکا جاتا۔ اب یہ تعمیرات گرائی جائیں گی تو ایک شور مچے گا، مزاحمت کا سامنا ہوگا۔ چنانچہ میئر کراچی وسیم اختر نے عذر پیش کیا ہے کہ لیاری ندی پر عمارتیں بن گئی ہیں جنھیں خالی کرانا مشکل ہے۔ انہوں نے گجرنالے کے متاثرین کے لیے معاوضے کی فراہمی کی درخواست کردی۔ کیوں نہ یہ معاوضہ بلدیہ سمیت وہ ادارے ادا کریں جن کی چشم پوشی سے نالوں پر مکانات بن کر کھڑے ہوگئے۔ کئی ایسے مقامات ہیں جہاں نالے تو بالکل غائب ہی ہوگئے۔ دوسری طرف شہر کے 500 نالے کچرے سے اٹے ہوئے ہیں۔ میئر کراچی نے اس کے لیے بھی پیسے مانگ لیے کہ کمیشن پیسے دلوائے، میں نالے صاف کرادوں گا۔ میئر کراچی یا تو اختیارات کا رونا روتے ہیں یا جو کام ان کے فرائض میں شامل ہے اس کے لیے پیسے مانگتے ہیں۔ میئر نے نالے بند ہونے کی ذمے داری پلاسٹک کی تھیلیوں پر عاید کردی۔ چلیے قصہ ختم ہوا۔ پہلے تھیلیوں پر پابندی لگائی جائے پھر نالے صاف ہوں گے۔ اب دیکھنا ہے غیر قانونی تعمیرات کب مسمار ہوتی ہیں۔