راؤ انوار کی گرفتاری

422

بالآخر قتل، دہشت گردی، جعلی پولیس مقابلے اور ناجائز اسلحہ رکھنے کے مقدمات میں ملوث مفرور ملزم معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو ان کے سہولت کاروں نے عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کردیا، اور ملکی صورت حال پر نظر رکھنے والے کا گمان یا یوں کہہ لیں کہ بدگمانی یہ ہے کہ سیکڑوں افراد کو ماورائے عدالت قتل کرنے والے راؤ انوار کے سہولت کار وہی ہیں جنہوں نے سہولت کار کی اصطلاح ایجاد کی۔ سہولت کار کی اصطلاح نے قانون نافذ کرنے والوں خصوصاً پولیس میں موجود بدعنوان عناصر کی چاندی کرادی، مدتوں بعد ملنے والے کسی دوست کو کھانا کھلانا، یا بیرون شہر سے آنے والے کسی دوست کی درخواست پر اسے گھر میں ایک آدھ دن مہمان بنانا لینا جیسے معمول کے کاموں کو دہشت گردوں کی سہولت کاری میں شامل کرکے ملک بھر میں عموماً اور کراچی میں خصوصاً لاکھوں روپے کما لینا بائیں ہاتھ کھیل بن چکا ہے، ماہانہ لگ بھگ ایک لاکھ روپے تنخواہ پانے والے معطل اور اب گرفتار ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی دولت میں تو سہولت کاری نے ایسی برکت پید ا کی کہ ہرماہ دبئی کی یاترا پر نکل جاتے ہیں۔
بدھ کے روز عدالت عظمیٰ میں نقیب اللہ قتل کے حوالے سے سماعت جاری تھی، اسی دوران کمرہ عدالت کے باہر اچانک حفاظتی اقدامات بڑھنے اور پولیس کی نفری میں اضافہ ہونے لگتا ہے، اسی اثنا میں عدالتی کارروائی میں اچانک پندرہ منٹ کا وقفہ کردیا جاتا ہے، اور اسی وقفے میں اچانک کچھ نامعلوم افراد ایک سفیدرنگ کی کار میں راؤ انوار کو لیے نمودار ہوتے ہیں اور راؤ انوار کو ان کے وکیل کے ہمراہ کمرہ عدالت میں چھوڑ کر اسی سفید گاڑی میں واپس چل پڑتے ہیں، راؤ انوار کو ان کے سہولت کاروں نے بالکل اسی انداز میں اسلام آباد ایر پورٹ سے بیرون ملک کی فرار کی ناکام کوشش کے بعد ایک جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑی میں بیٹھا کر ایک محفوظ مقام پر منتقل کیا تھا، اور اُسی مقام سے بدھ کو عدالت میں پیش کردیا گیا، عدالت میں پیش ہونے والے یا پیش کیے جانے والے ملزم راؤ انوار کے وکیل نے پولیس کی جانب سے نقیب اللہ قتل کیس کی تفتیش کی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس معاملے کی تفتیش میں دو وفاقی خفیہ ایجنسیوں آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیورو کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا تاہم عدالت نے ان کی اس درخواست کو رد کردیا۔
جعلی پولیس مقابلوں اور ماورائے عدالت قتل کے کئی معاملات میں ملوث ایک معطل پولیس افسرکی جانب سے اپنے خلاف ان معاملات کی تفتیش ملک کی خفیہ ایجنسیوں سے کرانے کا صرف مطالبہ ہی ایک خاص معنی رکھتا ہے، خاص طور جب ماورائے عدالت قتل کے متعدد واقعات میں ملوث سمجھا جانے والے ایک پولیس افسر اپنی گفتگو میں اس بات کا تاثر دینے کی کوشش کرتا ہو کہ اس کو ملک کی خفیہ ایجنسیوں کی سر پرستی حاصل ہے، راؤ انوار نے نہ صرف اپنی افسری کے دوران اس طرح کا تاثر دینے کی کوشش کی تھی بلکہ نقیب اللہ قتل کیس میں مفروری کے دوران اپنی پناہ گاہ سے دیے جانے والے متعدد پیغامات میں بھی اس بات کا اظہار کیا کہ اس نے تمام کارروائیاں حکومت کے ایما پر کیں اور راؤ انوار کے مطابق ماروائے عدالت قتل حکومتی پالیسی کا حصہ تھی اور جس بنیاد اس جملے پر رکھی گئی تھی کہ کسی دہشت گرد کو زمیں پر رہنے کا حق نہیں ہے۔
2011 سے 2018 کے درمیان کم از کم 444 لوگ قتل ہوئے، مگر ایک بھی انکوائری نہیں ہوئی۔ 745 پولیس مقابلوں میں ایک بھی پولیس اہلکار زخمی تک نہیں ہوا، ہلاک ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ 2013 کے اواخر میں کراچی میں شروع ہونے والے رینجرز آپریشن نے راؤ انوار کے دور میں ضلع ملیر میں پولیس مقابلوں کو تیزی دی۔ پولیس کے ریکارڈز کے مطابق ملیر میں جنوری سے اکتوبر 2012 کے درمیان 195 پولیس مقابلے ہوئے جن میں 18 لوگ قتل ہوئے اور 276 گرفتار ہوئے۔ اموات اور گرفتاریوں کا تناسب، یعنی ’شرحِ قتل‘ 6.5 فی صد رہی۔ فروری سے جون 2013 کے درمیان شرحِ قتل 17.6 فی صد رہی۔ 2014 میں آپریشن شروع ہونے کے بعد 186 مقابلوں میں 152 لوگ ہلاک ہوئے جب کہ 192 گرفتار ہوئے، یعنی شرحِ قتل 79 فی صد رہی۔ گزشتہ سال 93 مقابلوں میں 110 اموات اور 89 گرفتاریاں ہوئیں۔ اس کا مطلب ہے کہ گرفتاریوں کی تعداد قتل سے 23 فی صد کم رہی۔ موجودہ نظامِ قانون ہمیں یہ بتانے سے قاصر ہے کہ تہ تیغ کیے گئے ان لوگوں میں سے نقیب اللہ کی طرح کتنے معصوم لوگ شامل تھے۔ ان اعداد وشمار کی روشنی میں ماورائے عدالت قتل کو حکومتی پالیسی قراردینے کے بیانات کی سنجیدہ اور اعلیٰ ترین سطح پر تفتیش کی ضرورت تھی تاہم اس کی تردید میں نچلی سطح کے چند بیانات کا ہی کافی سمجھ گیا، تاہم کئی سابق پولیس افسران کو اس بات کا ادارک ہے کہ پولیس سمیت قانون نافذ کر نے والے کئی ادارے کمزور تفتیش، عدالتی فیصلوں میں تاخیر اور دیگر کئی وجوہ کی بنا پر ملزمان کے ماورائے عدالت قتل کو جائر سمجھتے ہیں جو قطعی طور پر ایک غلط اور گھناونی سوچ ہے اور ماہرین قانون امن و امان قائم کرنے کا ایک خود غرض راستہ قرار دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ انصاف یا دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ اس عمل سے ریاست کمزور ہوتی ہے اور جیسے جیسے ریاست کمزور ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے یہ زیادہ مطلق العنان ہوتی جاتی ہے۔ اور اس صورت میں جب حکومت کی نظر میں یقینی ’مجرمان سے نمٹنے کے لیے فوجی اور انسداد دہشت گردی کی عدالتوں جیسا انتہائی غیر معمولی اقدام اٹھا لیا گیا تھا تو پھر ماورائے عدالت قتل کی کیا ضرورت، سابق آئی جی افضل شگری کا کہنا ہے کہ پولیس مقابلے تین وجوہ کی بناء نقصان دہ ہیں۔ ’’یہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہیں، اور تیسری بات یہ کہ حالات کی تبدیلی پر ا س طرح کے مقابلے کرنے والے افسران کو بچانے کے لیے کوئی سامنے نہیں آتا۔ قانونی حلقوں کے مطابق جب عدالت عظمیٰ نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا ازخود نوٹس لیا تھا تو اس بات کا امکان تھا کہ راؤ انوار کی جانب سے ماروائے عدالت قتل کو حکومتی پالیسی قرار دے جانے پر بھی عدالت کی جانب سے نوٹس لیا جائے گا اور اس بات کی بھی تفتیش کی جائے گی کہ راؤ انوار کے اس دعویٰ میں کتنی صداقت ہے اور کراچی سمیت ملک بھر میں کتنے افراد اس پالیسی کے نتیجے میں مارے گئے۔