احتساب کا دھوبی پٹکا

639

خبر آئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے نومنتخب صدر اور پنجاب کے وزیراعلی المعروف خادم اعلیٰ جناب شہباز شریف نے گوجرانوالہ میں رستم پاکستان کو ’’دھوبی پٹکا‘‘ مار کر نیچے گرالیا اور گوجرانوالہ کا جناح اسٹیڈیم تالیوں سے گونج اُٹھا۔ بتایا گیا ہے کہ اس شہر میں مسلم لیگ (ن) نے ایک بڑے جلسے کا اہتمام کیا تھا جس میں نامی گرامی پہلوانوں نے بھی روایتی ڈھول تاشے کے ساتھ شرکت کی تھی اور ان کی طرف سے خادم اعلیٰ کو گرز پیش کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا چناں چہ رستم پاکستان شاہد بابر پہلوان خادم اعلیٰ کو گرز پیش کرنے کے لیے جونہی اسٹیج پر پہنچا اور بیس کلو وزنی روایتی گرز ان کے ہاتھ میں پکڑانا چاہا تو خادم اعلیٰ نے چابک دستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلوان کو گردن سے دبوچ لیا اور مشہور پہلوانی داؤ’’دھوبی پٹکا‘‘ مارتے ہوئے پہلوان کو نیچے گرالیا اور پہلوان نے بھی جلدی سے اُٹھ کر خادم اعلیٰ کو جھپی مارلی۔ گوجرانوالہ پہلوانوں کا شہر ہے۔ ن لیگ کے جلسے میں پہلوانی کا یہ مظاہرہ ایک اچھا آئٹم تھا جس سے پبلک خوب محظوظ ہوئی۔ دھوبی پٹکا جسے لوگ دھوپی پنڑا بھی کہتے ہیں، پہلوانی کا ایک ایسا داؤ ہے کہ اگر مدمقابل ذرا بھی چوک جائے تو چاروں شانے چت ہوجاتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں یہ پہلوانی داؤ بڑے تواتر سے آزمایا جارہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز پچھلے دنوں بلوچستان سے ہوا تھا۔ جہاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی پھر اچانک زرداری نے یہ داؤ آزمایا، لیگی ارکان نے اپنی حکومت سے بغاوت کردی، وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہوگئی اور ایک غیر معروف سیاستدان وزارت علیا کے منصب پر آبیٹھے اور گلشن کا کاروبار حسب معمول چلنے لگا۔ پھر سینیٹ کے انتخابات ہوئے تو اس میں بھی پیسے کے ساتھ ساتھ پہلوانی داؤ بھی لگایا گیا اور اب سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں بھی ’’دھوبی پٹکا‘‘ نے کام کر دکھایا اور میاں نواز شریف چوٹ سہلاتے رہ گئے۔ انہوں نے اس ممکنہ شکست سے بچنے کے لیے کئی چالیں چلیں۔ پیپلز پارٹی کے رضا ربانی کو مشترکہ امیدوار بنانے کی پیش کش کی لیکن زرداری نے لال جھنڈی دکھادی۔ ایک کالم نگار نے انکشاف کیا ہے کہ میاں صاحب نے زرداری کو پھر پیغام بھیجا کہ اچھا اگر رضا ربانی پر راضی نہیں ہو تو مشاہد حسین سید کو مشترکہ امیدوار بنالیتے ہیں لیکن زرداری اس پر بھی راضی نہ ہوئے۔ آخر مسلم لیگ (ن) کو اپنا امیدوار لانا پڑا اس نے راجا ظفر الحق کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا جن کے بارے میں مشہور ہے کہ شریف آدمی ہیں، شریفوں کو پسند ہیں لیکن ان کی ’’مقبولیت‘‘ کا یہ عالم ہے کہ اپنے علاقے سے کونسلر بھی منتخب نہیں ہوسکتے۔ سینیٹر اس لیے منتخب ہوجاتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان شرما حضوری میں انہیں ووٹ دے دیتے ہیں۔ چناں چہ مقابلہ ہوا تو بلوچستان سے صادق سنجرانی منتخب ہوگئے اور ڈپٹی چیئرمین کے لیے پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا کامیاب قرار پائے۔ بقول شخصے اس کھیل میں تحریک انصاف ’’چھنکنا‘‘ باقی رہ گئی۔ شاید اسے یہی کام سونپا گیا تھا۔
کہا جارہا ہے کہ یہ الیکشن نہیں سلیکشن ہے اور یہ سلیکشن ’’نادیدہ قوتوں‘‘ نے کی ہے جو پاکستان میں بادشاہ گر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ اعتراض مسلم لیگ (ن) کررہی ہے۔ میاں نواز شریف، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو چابی والے کھلونے قرار دے رہے ہیں۔ جو بٹن دبانے پر اپنے ’’باس‘‘ کے حضور سجدہ ریز ہوگئی ہیں۔ اس کا اعتراض اپنی جگہ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ماضی میں مسلم لیگ (ن) ہی نادیدہ قوتوں کی پسندیدہ جماعت رہی ہے اور یہاں نواز شریف ان کی قربت پر ہمیشہ فخر کرتے رہے ہیں۔ اگر شریف خاندان تیس پینتیس سال تک اقتدار کے مزے لوٹتا رہا ہے تو ’’نادیدہ قوتوں‘‘ کی سرپرستی ہی میں ایسا ممکن ہوا ہے یہ تو ایک صنعتی اور کاروباری خاندان تھا اور لاہور میں اتفاق فاؤنڈری چلا رہا تھا کہ بادشاہ گروں کی نظر میں آگیا اور انہوں نے اس خاندان میں سے نواز شریف کو چن کر شریک اقتدار کرلیا۔ پھر آہستہ آہستہ پورا خاندان ہی اقتدار کے احاطے میں داخل ہوگیا۔ قدرت کا اصول ہے ’’ہر عروج را زوالے‘‘ دنیا میں کسی کا اقتدار بھی دائمی نہیں رہا، تاریخ ان لوگوں سے بھری پڑی ہے جو عروج کے بعد زوال کا شکار ہوئے اور نشان عبرت بن گئے۔ کوئی اندازہ کرسکتا تھا کہ اچانک پاناما لیکس نازل ہو گی اور میاں نواز شریف اس کی لپیٹ میں آکر اقتدار سے محروم ہوجائیں گے اور ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی گردان کرتے ہوئے پورے ملک میں تماشا بن جائیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ قدرت کا ’’دھوبی پٹکا‘‘ ہے جس نے انہیں چاروں شانے چت کردیا ہے اور وہ اپنی شکست تسلیم کرنے کے بجائے چیخ و پکار میں مصروف ہیں۔ چیخ و پکار سے ان کی مشکلات کم ہونے کے بجائے اور بڑھتی جارہی ہیں۔ ابھی احتساب عدالت کا فیصلہ آنے والا ہے جس میں انہیں قید کے علاوہ جائداد بحق سرکار ضبط کرنے کی سزا بھی ہوسکتی ہے، وہ اس سزا سے بچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اور ان کی بے چینی ان کے بیانات سے ظاہر ہے۔ ان کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے وہ اسے ’’خفیہ ہاتھوں‘‘ کی کارستانی سمجھتے ہیں۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ چلو مان لیا کہ یہ ’’خفیہ ہاتھوں‘‘ ہی کی کارستانی ہے لیکن اس سے پاکستان کے مستقبل پر پڑنے والے
مایوسی کے گہرے سایے تو چھٹے ہیں اور یہ امید تو پیدا ہوئی ہے کہ پاکستان میں طاقتور لوگوں کا بھی بے لاگ احتساب ہوسکتا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ عدالتیں بے خوف ہو کر فیصلہ دے رہی ہیں۔ عدلیہ کی فعالیت یعنی جوڈیشل ایکٹوازم نے بھی حکومتوں کو لگام ڈال دی ہے، پنجاب حکومت کی تو ساری گڈ گورننس ہی سرکاری اشتہارات کے سہارے چل رہی تھی۔ چیف جسٹس نے خادم اعلیٰ کی تصویروں والے تمام اشتہارات پر پابندی لگادی ہے اور اب تک جو اشتہارات چھاپے گئے ہیں ان کے بلوں کی رقوم سرکاری خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے، یہ رقم اربوں سے کیا کم ہوگی یہی حکم سندھ اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کو بھی دیا گیا ہے جو سرکاری وسائل ذاتی تشہیر پر خرچ کررہی تھیں۔ نیب بھی بڑی دلیری سے احتساب کے عمل کو آگے بڑھارہا ہے، وہ ان مقدس گائیوں کو بھی نوٹس جاری کررہا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ یہ طبقہ احتساب سے بالا تر ہے اور تو اور سابق کمانڈر صدر جنرل (ر) پرویز مشرف پر بھی کمنڈ ڈالی جارہی ہے۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ درست اور اُمید افزا ہیں لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر زرداری اور ان کے ٹولے کا احتساب نہ ہوا تو یہ سارا عمل یک طرفہ قرار پائے گا اور اس احتساب کی وہ افادیت قائم نہ ہوسکے گی جو قوم کو مطلوب ہے۔ احتساب کا ’’دھوبی پٹکا‘‘ زرداری کے خلاف بھی استعمال ہونا چاہیے تا کہ قومی زندگی میں کرپشن اور لوٹ مار کا جو گند پھیلا ہوا ہے وہ ایک دم صاف ہوجائے اور پاکستان عالمی برادری میں سر اٹھا کر چل سکے۔ گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں۔