حکومت درمیانی مدت کے قرضوں کی ادائیگیوں کے لئے فوری اقدامات کرے،

509

آل پاکستان بزنس فورم (اے پی بی ایف) نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ ملکی مالیاتی صورتحال کو بڑھتے ہوئے خطرات اور قرضوں پر حکومتی انحصار کی وجہ سے پاکستان کے درمیانی مدت کے قرضوں کی ادائیگیوں کی صلاحیت کے لئے فوری اقدامات اٹھائے۔
ہفتہ کو جاری کردہ اپنے ایک بیان میں آل پاکستان بزنس فورم کے صدر ابراہیم قریشی نے کہا کہ حکومت موجودہ مالی سال کے دوران جی ڈی پی کے 5.5 فیصد سے زائد خسارے کو پورا کرنے کی کوشش میں زیادہ تر نان ٹیکس ریونیو اور اضافی بجٹ پیدا کرنے کے لئے قرضوں پر انحصار کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے حال ہی میں عام انتخابات سے قبل پی ایس ڈی پی کے لئے مختص فنڈز میں اضافہ کے بعد اخراجات میں متوقع اضافہ کی وجہ سے جی ڈی پی میں 5.5 فیصد کا بجٹ خسارہ ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرضے پہلے ہی دسمبر کے اختتام تک 89 ارب ڈالر تک بڑھ چکے ہیں

ابراہیم قریشی نے کہا کہ دسمبر کے اختتام تک پاکستان کے بیرونی قرضے اور ذمہ داریوں میں پہلے ہی 89 ارب ڈالر تک اضافہ ہو گیا ہے اور تجارت سے متعلق ذمہ داروں اور بیرونی ادائیگیوں میں اضافہ کی وجہ سے اعداد و شمار موجودہ مالی سال کے اختتام تک نمایاں طور پر بڑھنے کی توقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی ایجنسیاں بھی ملکی قرضوں کے بوجھ میں تبدیلی کی توقع نہیں کرتیں اور اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ جی ڈی پی کا مجموعی قرضے کا تناسب 69.7 فیصد تک رہے گا جو پارلیمنٹ کی جانب سے حکومت کے لئے مقرر کردہ حد سے کہیں زیادہ ہے۔
ابراہیم قریشی نے کہا کہ درآمدات میں اضافہ نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ میں اضافہ کیا اور بڑی بیرونی سرمایہ کاری کے باوجود بین الاقوامی ذخائر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ مالی سال 2017-18ء کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایکسچینج ریٹ میں محدود لچک کے تناظر میں مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید کمی کے ساتھ جی ڈی پی کے 4.8 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ خسارہ 16.6 ارب ڈالر کے برابر ہے اور 12.1 ارب ڈالر کے خسارہ سے بہت زیادہ ہے جو پاکستان نے گزشتہ مالی سال میں ادائیگی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سال جی ڈی پی کے 5.5 فیصد تک بجٹ خسارہ بڑھنے کی توقع ہے جو تقریباً 2 کھرب روپے کے برابر ہے اور یہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہوگا۔ حکومتی ہدف جی ڈی پی کے 4.1 فیصد یا 1.48 کھرب ہے۔
آل پاکستان بزنس فورم کے صدر نے آئی ایم ایف اور ڈبلیو بی کی رپورٹس کے مندرجات کے مطابق میکرو اکنامک صورتحال بشمول بیرونی اور مالیاتی عدم توازن میں اضافہ، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، پاکستان کی معیشت اور مالیاتی صورتحال کو بڑھتے ہوئے خطرات اور درمیانی مدت کے قرضوں کے استحکام کی کمزور صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
انہوں نے حکام پر زور دیا کہ وہ اضافی آمدن کے اقدامات کے ذریعے مالیاتی استحکام برقرار رکھیں۔ انہوں نے محتاط ڈیبٹ مینجمنٹ اور نئی بیرونی ذمہ داریوں میں احتیاط اور سرکاری شعبہ کے اداروں میں نقصان کا باعث بننے والے بڑھتے ہوئے مالیاتی خطرات سے نمٹنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے موجودہ مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران 797 ارب روپے (جی ڈی پی کے 2.2 فیصد) تک بجٹ خسارے کو محدود کیا۔ ملکی اخراجات 2385 ارب روپے کی آمدن کے مقابلے میں 3180 ارب روپے ریکارڈ کئے گئے جس میں 797 ارب روپے کا خسارہ ہوا۔ حکومت نے ایک بار پھر موجودہ مالی سال کے لئے بجٹ خسارہ 5.2 فیصد (1883 ارب روپے) ظاہر کیا ہے۔