یوم پاکستان کا پیغام

584

آج ملک بھر میں یوم پاکستان منایا جارہاہے۔ یہ دن 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد پاکستان منظور ہونے کی یاد تازہ کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔ مذکورہ اجلاس میں اسے قرارداد لاہور کا نام دیا گیا لیکن ہندو پریس یہ سمجھ گیا تھا کہ اس میں ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ ہے اس لیے اس نے اسے قرارداد پاکستان کا نام دیا۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اجتماع میں ہندوستان کے تمام علاقوں کے مسلمانوں کی نمائندگی تھی اور پنجاب سے بنگال تک سب متحد اور متفق تھے۔ قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں صرف 7 سال بعد پاکستان وجود میں آگیا جو اس وقت مغربی اور مشرقی پاکستان کی صورت میں تھا۔ بنگال وہ صوبہ تھا جو انگریزوں اور ان کے متوقع جانشین ہندوؤں سے آزادی کی تحریک میں صف اول میں تھا۔ مسلم لیگ کا قیام بھی ڈھاکا میں نواب سلیم اﷲ کے گھر میں ہوا تھا۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد صرف 24 سال بعد بنگالی مسلمانوں کے دلوں میں زہر گھول دیا گیا اور انہوں نے پاکستان سے علیحدگی حاصل کرکے بنگلا دیش بنالیا۔ یہ کیسے ہوا اور اس میں کس کس نے اہم کردار ادا کیا یہ ایک طویل داستان ہے جس کا تجزیہ بارہا ہوچکا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے ڈھاکا میں کھڑے ہوکر دعویٰ کیا کہ بنگلا دیش ہم نے بنایا ہے، کسی مکتی باہنی نے نہیں۔ اس کی آڑ میں بھارتی فوج لڑرہی تھی۔ یہ بنگلا بندھو اور ان کی اولاد حسینہ واجد کے منہ پر بنگلا دیش کے سرپرستوں کا زوردار تمانچہ ہے۔ تاہم اس میں قصور مغربی پاکستان کے حکمرانوں کا بھی تھا۔ 1970ء تک بنگالی بھائی مل جل کر یوم آزادی اور یوم پاکستان مناتے رہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا اور اپنے رب سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے۔ کلمہ کی بنیاد پر حاصل کردہ ملک جسے ریاست مدینہ کا مماثل بننا تھا وہاں آج بھی سیکولر عناصر مملکت اسلامیہ پاکستان کو سیکولر بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں اور دعویٰ ہے کہ پاکستان معاشی وجوہات کی بنا پر بنایاگیا تھا۔ ان کو سیاست میں مذہب کا دخل ناگوار ہے لیکن اﷲ کا احسان ہے کہ پاکستان کی اکثریت نظریاتی طور پر مسلمان ہے۔ اسی لیے ناموس رسالت پر ضرب آنے کا خدشہ ہو تو تمام مسالک متحد ہوجاتے ہیں۔ 23 مارچ اسی کی یاد دہانی ہے کہ پاکستان کس لیے حاصل کیا گیا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ قوم کو ایک چھٹی ملنے کی خوشی ہوتی ہے جو فضولیات میں گزرجاتی ہے بہت سے بہت کچھ جلسے ہوجاتے ہیں جن میں تقریریں کرکے سب اپنے اپنے مشاغل میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ اس بار 23 مارچ کو جمعہ بھی ہے۔ائما مساجد اور خطیب حضرات اس موقع پر قرارداد پاکستان اور اس کے مقاصد پر روشنی ڈالیں تو بہت سے لوگوں تک یوم پاکستان کا صحیح پیغام پہنچ سکتا ہے۔